۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
توہین رسالت کی ایک طویل تاریخ

حوزہ/ انہوں نے قرآن اور اسلام کے خلاف ایک جامع جنگ شروع کر رکھی ہے ، ہمیں بھی دو محاذوں پر لڑنا ہے، ہمیں قرآن مجید کےہجر اور متروک ہونے کے خلاف لڑنا ہے ، ہمیں قرآن کے خلاف حجر اور ہذیان گوئی سے بھی لڑنا ہے ، کیونکہ دشمن دو محاذوں سے حملہ کر رہا ہے، ہم ان دونوں محاذوں سےنقصان کا سامنا کررہے ہیں ،ان دو محاذوں پر تیاری ضروری ہے۔

تحریر: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

حوزہ نیوز ایجنسی|حال ہی میں ، متعدد یورپی ممالک میں دائیں بازو کی تحریکوں کے ذریعہ اسلام دشمنی پر مبنی خبروں نے مسلمانوں کے غم و غصے کو بھڑکا دیا ہے، اس طرح کی اسلام دشمن حرکتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں ، اور ایسے طرز عمل کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اس طرح کی انتہا پسندی اور توہین آمیز سلوک کی ایک ایسی دنیا جو آزادی اظہار رائے کے نام سے مشہور ہے ایک طویل تاریخ  پر محیط نظر آتی ہے۔

سلمان رشدی سے ونسنٹ وین خوخ تک[Vincent van Gogh]

اگر ہم اس ماجرے کے تاریخی نصاب کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے اقدام کا سب سے قدیم اور سب سے زیادہ مشہور نام 1988 ء  میں سلمان رشدی کا رہا ہے ، اسی سال اس ملحد برطانوی -ہندوستانی مصنف نے اسلام مخالف کتاب«شیطانی آیات» لکھی تھی جس میں پیغمبر اسلام( صلیٰ اللہ علیہ و آلہ)،اصحاب و ازواج  کے کردار کو دوسرے انسانوں کی شکل میں  لیکن اسی نام اور اسی مشابہت کے ذریعہ مورد اہانت قرار دیا تھا اور پھر اسی سال ، امام خمینی(رہ) نے اسے قتل کرنے کا حکم جاری کیا ، اور یہ فتوی آج بھی نافذ ہے، اس سال کے بعد ، متعدد دوسرے افراد اور میڈیا ذرائع ابلاغ نے آزادی اظہار رائے کے نام پرتوہین کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک طرح سے ، یہ رجحان انہیں برسوں سے جاری رہا۔

سلمان رشدی کے توہین آمیز عمل کے بعد ، ڈچ فلمساز اور صحافی ، تھیوڈور وان گو[Theo van Gogh] (ونسنٹ وین گو کے بھائی کی اولاد) نے ایک فلم بنائی ، جس میں مسلمان خواتین پر ظلم و بربریت کی اصل وجہ  اسلام کو قرار دیا گیا، اس فلم کا مرکزی کردار ایک مراکشی لڑکی ہے،  اس کی ریلیز کے بعد افریقی ممالک میں ، خاص طور پر مراکش میں بہت سی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، 2004 ءمیں فلم بننے کے فورا ًبعد ڈچ فلمساز کو مراکش کے ایک 27 سالہ جوان نے قتل کر کے ہلاک کردیا تھا۔

جب ڈنمارک مسلم غصے کی آگ بھڑکاتا ہے

2005 میں ، پہلی بار ڈنمارک کے ایک رسالے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ ) کا توہین آمیز خاکہ شائع کیا، آزادی اظہار رائے کے بہانے یہ خاکے ڈنمارکی پریس میں شائع ہوئے اور تیزی سے سائبر اسپیس میں پھیل گئے، کارٹون کی اشاعت کے بعد ، دنیا بھر کے ڈینش سفارت خانوں پر حملے ہوئے اور جھڑپوں کے دوران متعدد افراد جانبحق ہوگئے۔

انہیں کارٹونوں کے مرکزی خیال کے ساتھ ایک سال بعد ، 2006 ءمیں ، ایک ڈچ فلم ساز نے مختصر دستاویزی فلم «فتنہ»بنائی، اس دستاویزی فلم کا آغاز قرآن پاک کے صفحات کی ایک تصویر سے اور ایک توہین آمیز کارٹون کی تصویر سے ہوا ہے، جس میں قرآن کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے کردار کی توہین کی گئی ہے، فلم کے اختتام  میں مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ خودہی ان آیات کو قرآن مجید سے پھاڑ پھینکیں اور یہ جملے کہے جاتے ہیں: اسلام کو پھیلنے سےروکیں اور پھر فیلم اس جملے پر ختم ہوجاتی ہے : «stop islamization» یہ فیلم خود کو بے حرمتی کے اسی عمل کے تسلسل کے طور پر ظاہر کرتی ہے، جلد ہی یہ توہین آمیز فیلم  اور اسکے کردار میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے ، اور پوری دنیا کے مسلمان ناراض ہوئے ، اور ڈنمارک کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے، اسلامی ممالک کے کچھ عہدیداروں نے اس پر ردعمل ظاہر کیا اور متعدد اسلامی ممالک نے ڈنمارک کے سامان اور اسکی مصنوعات پر پابندیاں عائد کردیں، ایران میں ، مظاہروں کے علاوہ ، متعدد اقدامات کیےگئے اور کچھ بڑی ڈینش کمپنیوں کو منسوخ اور نامنظور قرار دے دیا گیا،رہبر معظم انقلاب اس سال (2006) کو «پیغمبر اعظم(ص)» کا نام دیا اور آیت اللہ صافی گلپایگانی ، آیت اللہ نوری ہمدانی ، آیت اللہ مکارم شیرازی جیسے بزرگ مراجع تقلید  نے اس واقعے پر اپنا رد عمل ظاہر کیا اور انہوں نے اس توہین آمیزکاروائی کی سختی کے ساتھ مذمت کی۔

 9/11 کے نام پر  امریکی پادری کی چنگاری

2010 ءمیں  نائن الیون کی نویں برسی کے موقع پر ، کچھ امریکی انتہا پسندوں نے قرآن مجید جلایا اور بہت سے مسلمانوں کو مشتعل کردیا، اس اقدام سے دنیا کے لوگوں میں قرآن کی طرف توجہ بڑھ گئی اور مغربی ممالک میں قرآن مجید کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا، اسی سال ، قرآن کو نذر آتش کرنے پر مختلف تنازعات کھڑے ہوئے، قرآن پاک کو جلانے کے لئے مرکزی چنگاری امریکی پادری ٹیری جونز نے لگائی تھی ، لیکن 11 /ستمبر ، 2010 ءکو  جب قرآن پاک جلانے کے پروگرام کے بارے میں متعدد افراد اور اداروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ، تو اس نے کہا :«ہم قطعاً قرآن نہیں جلائیں گے؛ نہ آج ، نہ ہی کبھی اور»  لیکن مارچ 2009 ءمیں ، اس نے اپنے چرچ میں قرآن کو نذر آتش کردیا ، جس پر مسلمانوں نے ایک سخت احتجاجی مظاہرہ کیا، قرآن کے مطابق:«يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ»؛یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(سورہ صف(۶۱):۸۔)

اس کے ایک سال بعد ، 2011 ءمیں اسلام مخالف امریکی پادری ٹیری جونز  ، جس نے  اس سے پہلے چرچ میں قرآن پاک جلایا تھا ، اس نے ایک توہین آمیز فلم «مسلمانوں سے بیزاری» بنادی، کچھ مصری چینلوں اور ویب سائٹس پر عربی زبان میں ڈب کرکے اسے ریلیز کردیاگیاجسکی وجہ سے بڑے پیمانے پر مسلمان مشتعل ہوگئے اور جگہ جگہ پر امریکی سفارت خانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

چارلی ہیبڈو کے دفتر پر جانلیوا حملے

جنوری 2015 ءمیں ، فرانسیسی جریدے «چارلی ہیبڈو» نے ایک بار پھر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بارے میں توہین آمیز کارٹون شائع کیے اور اس کی اشاعت کے بعد ، پیرس میں میگزین کے دفتر پر حملہ کیا گیا اور اس تنازعہ کے دوران 17 /افراد کہ جنمیں سے ۱۲/افراد اسی جریدے کے ملازمین ، بشمول میگزین کے توسط سے توہین کرنے والے کارٹونسٹ ہلاک ہوگئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ سلمان رشدی ، جو معاصر دور میں کسی نہ کسی طرح اس تحریک کا آغاز کنندہ تھا ،اس نے اس جریدے کی اشاعت کی حمایت کرتے ہوئے کہا: «مسلمانوں کو اپنی معزز شخصیات کے توہین آمیز کارٹونوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے قبول کرلینا چاہیئے»۔

گذشتہ کئی سالوں سے اسی طرح کی حرکتیں جاری ہیں ، اور  یورپ اور امریکی ممالک کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ) کی توہین کرنے کی اطلاعات سننے کو ملتی ہیں ، لیکن حالیہ دنوں میں بیک وقت اسی طرح کی متعدد حرکتیں ہوچکی ہیں،جس سے ایک بار پھر اس  خبر نے مسلمانوں کو مشتعل کردیا ہے؛ سویڈن کے مالمو میں کچھ دائیں بازو کے افراطی لوگوں نے قرآن کی توہین کی اور اس کا ایک نسخہ جلایا، قابل ذکر ہے کہ ڈنمارک کی ایک انتہا پسند جماعت کے رہنما ، راسمس پالوڈن نے سویڈن میں ایک مظاہرے اور قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور وہ اس مظاہرے میں حصہ لینے والا تھا لیکن سویڈش سیکیورٹی فورسز نے اسے ملک میں داخل ہونے سے روکا ، لہذا ایک بار پھر اس عمل میں ڈنمارک کے ہاتھ صاف نظر آتے ہیں۔

سویڈن میں اس واقعے کے بعد ، اسلام مخالف گروہ نے ناروے میں ایک اسلام مخالف ریلی کا انعقاد کیا ، جس کے دوران انہوں نے قرآن اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ)کی بے حرمتی کی جس پربہت سارے مسلمانوں کے احتجاج نے دنیا کو جھنجھوڑا تھا، اس اسلام مخالف حالیہ کی تازہ ترین کارروائی میں ، فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو ، جس نے ایسی فریب کارانہ کاروائیوں کی بنیاد رکھی تھی ، جن میں سے کچھ کا تذکرہ اوپرکیا گیا ، اس نے اپنے توہین آمیز کارٹونوں کو دوبارہ شائع کیا ، اور ادارتی مصنف نے لکھا:«ان تصاویر کا تعلق تاریخ سے ہے ، اور تاریخ کو نہ ہی دوبارہ لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے مٹایا جاسکتا ہے»یہ اقدام ایسے موقع پر کیا گیا جب عدلیہ کی جانب سے«چارلی ہیبڈو» کے دفتر پر ہونے والے حملے میں ملوث اور اس کے بعد کے دنوں میں ہونے والے دو حملے میں  گرفتار۱۴/افراد پر  مقدمے کی سنوائی ہوئی ہے۔

اور ابھی ۲۰۲۰ءمیں فرانسوی صدر امانوئل میکرون  کا معاملہ درپیش ہےاور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہ سکتا ہے۔

ہم اس تحریر کا اختتام مفسر قرآن، مرجع تقلید آیت اللہ جوادی آملی کی تقریر کے ایک حصے کے ساتھ کرتے ہیں؛ انہوں نے « قرآن مجید اور عصری دنیا کے مسائل» پر ایک کانفرنس میں کہا: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے سور ۂ فرقان کی آیت 30 / سے آواز دی:«يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا»؛پروردگار اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کردیا ہے؛ یہ آیتِ کریمہ مہجوریت کے مسئلہ کو بتارہی  ہے ان سے جنکے بارے میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ) بات کر رہے ہیں،مہجورایعنی متروکہ جبکہ محجوارا حجر کے مصدر سے ہذیان کے معنوں میں ہے،یہ بات جو کہی گئی ہے کہ  «ان الرجل لیحجر» یعنی یہ شخص ہذیان بولتا ہے،اس پر توجہ کی ضرورت ہے....مطلب یہ ہے کہ ڈنمارک  سےقرآن مجید کو مہجور یا محجور کرنے والی صدا ہذیان گو ہے۔

 انہوں نے قرآن اور اسلام کے خلاف ایک جامع جنگ شروع کر رکھی ہے ، ہمیں بھی دو محاذوں پر لڑنا ہے، ہمیں قرآن مجید کےہجر اور متروک ہونے کے خلاف لڑنا ہے ، ہمیں قرآن کے خلاف حجر اور ہذیان گوئی سے بھی لڑنا ہے ، کیونکہ دشمن دو محاذوں سے حملہ کر رہا ہے، ہم ان دونوں محاذوں سےنقصان کا سامنا کررہے  ہیں ،ان دو محاذوں پر تیاری ضروری ہے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی توہین قرآن کی توہین کے مترادف ہے، وہ جو قرآن اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو دو الگ الگ حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے وہ ’’احول‘‘ ہے، یہ دونوں  ایک ہی حقیقت کے سوا کچھ نہیں ہیں،صرف  ایک ہی حقیقت  ہے جو  قرآن کی شکل میں آکراور انسان کے قالب میں  ڈھل کرپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے وجود کی شکل میں جلوہ افروز  ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .