۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ مغربی تہذیب اور مغربی طرز تعلیم نے تعلیم اور آرٹ کے نام پر مسلمانوں سے ان کا قومی اور ملی تشخص، زبان و لباس چھین کر انہیں ترقی اور ماڈرن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں غرق کرکے ان کے سر و صورت اور لباس کی تراش و خراش کو اوج سریا تک ہی پہنچا دیا ہے! اس پرستم بالائے ستم مغربی تہذیب کی ایک اور عطا کردہ اظہار محبت کا دن 14 فروری ویلینٹائن ڈے اللہ کی پناہ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اہل بیت (ع)فاؤنڈیشن ہندوستان کے نائب صدر حجت الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ 14 فروری کی تاریخ ویلنٹائن کے نام سے منسوب ہے جس کو انگلش میں ویلنٹائن ڈے کہتے ہیں! دور حاضر کی ترقی یافتہ دور کا یہ معاشرتی ناسور ’’یوم عاشقاں ‘‘یا ’’یوم ِ محبت ‘‘نہیں بلکہ معاشرے اور نئی نسل کو بے راہ روی، بے باکی، بے شرمی و بے حیائی اور بدکرداری جیسی بیماریوں میں ملوث کرنے کا پیشہ خیمہ ہے اور ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کے نام پر ایک دوسرے کے عزت و وقار  اور عصمتوں پر ڈاکہ زنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوں تو مغربی تہذیب اور مغربی طرز تعلیم نے تعلیم اور آرٹ کے نام پر مسلمانوں سے ان کا قومی اور ملی تشخص، زبان و لباس چھین کر انہیں ترقی اور ماڈرن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں غرق کرکے ان کے سر و صورت اور لباس کی تراش و خراش کو اوج سریا تک ہی پہنچا دیا ہے! اس پرستم بالائے ستم مغربی تہذیب کی ایک اور عطا کردہ اظہار محبت کا دن 14 فروری ویلینٹائن ڈے اللہ کی پناہ۔

ایک توکریلا دوسرا نیم چڑھا!

موصوف نے کہا کہ یہ وبا در حقیقت یونان و روم سے چلی ہے کہا جاتا ہے کہ یونان کے دیوتا زیوس اور اس کی معشوقہ ہیرا کی شادی کی خوشی میں یا پھر کلاڈیس کے دور حکومت میں شادی پر لگائے گئے روک کے باوجود شادی کرنے والے سینٹ ویلنٹائن کی سزائے موت کی یاد میں منایا جاتا ہے. البتہ اس تہوار کا ہر باشعور و بیدارمغز مذهبی طبقہ بائیکاٹ کرتا ہے کیونکہ مذکورہ روم ویونان کی باتیں صحیح معنوں میں جھوٹ اور کھوکھلی کہانیوں پر منحصر ہے اور جھوٹ کیوں بنیاد پر کھڑی عمارت سایہ دینے کے بجائے انسان کے لئے ایک دردسر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

روم یونان سے پھیلنے والی اظہار محبت اور دوستی کی وبا نے پوری دنیا کو اپنے گرفت میں لیا اور لاکھوں، کروڑوں لوگ اس بیماری کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، کتنے گھر و خاندان کی عزت و آبرو پامال ہوئی،  طلاق کا ناسور   بڑھا.... یورپ وغیرہ پر اس غیر اخلاقی طاعون نے گہرا اثر چھوڑااور پھر جب اس تباہی نے یورپ سے ہماری جانب رخ موڑا تو پورے سماج کو ہلا کر رکھ دیا،نئی نسلوں نے اس کا  ایسا پرجوش استقبال کیاکہ اسلامی تشخص دم توڑتی نظر آرہی ہے.... جو قابل غور لمحہ فکریہ ہے!۔

مزید کہا کہ اس دن اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر وغیرہ میں ہونے والی غیر اخلاقی ہرکتیں اور ایک دوسرے کو دئے جانے والے چاکلیٹ، پھولوں کے گلدستے، گلاب اور دیگر تحفہ اور تحائف در حقیقت اظہار محبت و دوستی نہیں ہے بلکہ ماں باپ، گھر و خاندان اور اپنی عزت و وقار کو اپنے ہی پیروں تلے روندنا اور اسلامی تہذیب و تعلیمات کی توہین اور شریعت کا کھلے عام مذاق اڑانا ہے۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!

یاد رہے! اگر آپ صحیح معنوں میں مسلمانوں ہیں تو اس بات کو ہرگز فراموش نہایت کریں کہ دینِ اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اقوام عالم کی ہر فرد کو پاکیزہ زندگی گزارنے کی دعوت دیتا ہے۔
 
شرم و حیا ایمان کا حصہ اور انسانیت کا لباس ہے!ایک مسلمان مرد و عورت کا حقیقی لباس، لباس تقوی ہے شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی دنیا و آخرت کابہترین سرمایہ ہے. جس کے پاس حیاء نہیں اس کا کو ئی دین نہیں،جس کے پاس حیاء نہیں اس کا کو ئی ایمان نہیں۔

مغربی تہذیب و ثقافت سے متاثر نئی نسل میں شرم و حیا کے کلچر کو عام کرنا ہمارا دینی اور اور اخلاقی فریضہ ہے۔

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی 
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .