حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دہلی میں رنکو شرما قتل کے بعد فرقہ پرست عناصر کے ذریعہ کھلے عام اشتعال انگیزی، مسلم اقلیت کے خلاف اکثریتی طبقے کو بھڑکانے کی کوشش پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس معاملے میں مرکزی وزارت داخلہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ جمعیۃ نے آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کیا ہے۔
جمعیۃ نے کہا کہ 'باہر سے آکر اشتعال انگیز نعرے اور مسلم اقلیت کے خلاف زہر آلود بیانات دینے والے عناصر پر فوری روک لگائی جائے اور علاقے میں مسلم اقلیت کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور کرفیو لگا کر امن وامان کے قیام کی کوشش کی جائے۔
اس سلسلے میں آج جمعیۃ علماء ہند کے دفتر میں منگول پوری سے مقامی مسلمانوں کا ایک وفد بھی پہنچا تھا، جس نے مولانا مدنی سے ملاقات کی اور اپنے احوال بیان کیے۔ مولانا مدنی نے ان کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ' جمعیۃ علماء ہند لگاتار یہاں کے حالات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور امن وامان کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔
اہوں نے کہا کہ جس طرح قتل کے واقعہ کو مذہبی رنگ دیا جارہا ہے اور اس کا گنہ گار پوری مسلم قوم کو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس پر سرکار اور پولس انتظامیہ کو سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو رینکو شرما کے قتل پر دکھ ہے اور ہم لوگ اس کے اہل خانہ کے ساتھ غم میں شریک ہیں، لیکن ساتھ ہی اس کی آڑ میں فتنہ برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
جمعیۃ علماء ہند کے دفتر آنے والے وفد کے ذمہ دار محمد ابراہیم نے بتایا کہ غازی آباد یوپی سے آئی 'سادھوی ماں' کے ذریعہ یہاں مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کے لیے ہندؤں کو للکارا گیا اور پولس کی موجودگی میں سادھوی نے ملزم کے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور مسلمانوں کو منفی معنی میں 'جہادی' بتایا اور ان کو ختم کرنے کی دھمکی دی گئی۔
اس کے علاوہ لگاتار بھیڑ بناکر دہلی اور دہلی کے باہر سے لوگوں کا مجمع منگولپوری میں جمع ہورہا ہے اور مختلف مذہبی نعرے لگار کر مسلمانوں کو دھمکی دے رہا ہے۔ایسے حالات میں وہاں رہنے و الے مسلم اقلیت میں کافی خوف و ہراس ہے اور وہ شمال مشرقی دہلی کی طرح اس علاقے میں فساد اور قتل عام کا خطرہ محسوس کررہے ہیں۔
ملاقات میں جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری اور لیگل معاملات کے نگراں ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی، ایڈوکیٹ محمد نوراللہ، مولانا غیور قاسمی اور عظیم اللہ صدیقی بھی موجود تھے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ممکنہ قانونی اقدامات کا بھی فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی مقامی وفد کو مشورہ دیا گیا کہ امن وامان کی بحالی کے لیے منگول پوری میں رہنے والے سبھی مذاہب کے ذمہ داروں کی امن میٹنگ منعقد کریں۔