جمعرات 30 اکتوبر 2025 - 12:57
جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس: مولانا محمود مدنی دوبارہ صدر، وقف ایکٹ و اسرائیلی جارحیت کی مذمت

حوزہ/ جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ نے اپنے اجلاس میں مولانا محمود اسعد مدنی کو دوبارہ صدر منتخب کرتے ہوئے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو اوقاف کی مذہبی شناخت کے لیے خطرہ قرار دیا اور حکومتِ ہند کے مسلمانوں سے متعلق بیانات پر سخت ردعمل ظاہر کیا، ساتھ ہی فلسطین کے حقِ خود ارادیت کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ کا اہم اجلاس نئی دہلی کے مدنی ہال میں صدرِ جمعیۃ مولانا محمود اسعد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے ارکان و نمائندگان نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر مولانا محمود اسعد مدنی کو ایک بار پھر جمعیۃ علماء ہند کا صدر منتخب کر لیا گیا۔

ناظمِ عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی نے اجلاس کی کارروائی پیش کی، جس کے بعد دستورِ جمعیۃ کی دفعہ 52 کے مطابق 2024 تا 2027 کے لیے مولانا مدنی کے نام کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر مولانا مدنی نے باضابطہ طور پر نیا چارج سنبھالا۔

مجلسِ عاملہ نے اپنی قرارداد میں کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 اوقاف کی مذہبی شناخت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے اعلان کیا کہ وہ اس کی آئینی، قانونی اور جمہوری سطح پر بھرپور مخالفت جاری رکھے گی۔

ساتھ ہی "اُمید پورٹل" کے رجسٹریشن سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ حکومتِ ہند متولیانِ اوقاف کو اطمینان کے ساتھ اندراج مکمل کرنے کے لیے کم از کم دو سال کی توسیع فراہم کرے۔

اجلاس میں حکومتِ ہند، وزیر اعظم اور وزیرِ داخلہ کے اُن بیانات پر سخت ردعمل ظاہر کیا گیا جن میں مسلمانوں پر غیر قانونی دراندازی یا آبادیاتی توازن بدلنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

مجلسِ عاملہ نے کہا کہ یہ الزامات غیر مصدقہ، اشتعال انگیز اور تفرقہ آمیز ہیں، جو قومی یکجہتی اور آئینی مساوات کے لیے نقصان دہ ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ حکومت نے خود سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اس کے پاس غیر قانونی دراندازوں کا کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں، اس لیے مسلمانوں پر ایسے الزامات دروغ گوئی پر مبنی ہیں۔

مولانا محمود مدنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی، شعائرِ دین، اور دینی اصطلاحات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ "حکومت اور میڈیا آئینی و اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی میں برابر کے شریک ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن جائیں، لیکن جمعیۃ علماء ہند اس منصوبے کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔"

اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک 1967ء کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہ ہو، جس کا دارالحکومت القدس (یروشلم) ہو۔

مجلسِ عاملہ نے اسرائیل کے جارحانہ اقدامات اور غزہ کے محاصرے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فلسطینی عوام کی آزادی، مقدس مقامات کے تحفظ، اور بازآبادکاری کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

اجلاس نے حکومتِ ہند سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنی روایتی خارجہ پالیسی کے مطابق فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha