حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پٹیشن پر جلد از جلد سماعت ہونے کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی۔ جس پر جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس انریدوھ بوس نے اس معاملے کی حتمی بحث ماہ ستمبر میں کیے جانے کا حکم دیا، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت سے جلد از جلد سماعت کیے جانے کی درخواست کی تھی۔
آج سپریم کورٹ کے حکم کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے بے لگام میڈیا پر شکنجہ کسنے کے اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی.
ہمارا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ باہمی گفت و شنید سے حل نہیں ہوتا تو سٹرکوں پر اترنے کے بجائے ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت کا رخ کرتے ہیں۔ اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتا ہے، لیکن افسوس جب فرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا.
مولانا مدنی نے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دی ہے، ہم کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اگر اظہار رائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی بھی دل آزاری کی جاتی ہے، کسی فرقہ یا قوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے تو ہم اس کے سخت خلاف ہیں۔
آزادیٔ اظہار رائے کی آئین میں مکمل وضاحت موجود ہے، لیکن اس کے باوجود میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کے معاملہ میں جج بن جاتا ہے اور انہیں مجرم بناکر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ جیساکہ ماضی میں تبلیغی جماعت کو لیکر اسی طرح کا رویہ اختیار کیا گیا تھا، لیکن افسوس جب بعد میں عدالتیں انہیں بے قصوروار قرار دیتی ہیں تو اسی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے، میڈیا کا یہ دوہرا رویہ ملک اور اقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے.
مولانا مدنی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے والے اور یکطرفہ رپورٹنگ کرنے والے ملک کے وفادار ہوسکتے ہیں؟
واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظی مدعی بنے ہیں جس پر اب تک متعدد سماعتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے کورونا کی وجہ سے سماعت نہیں ہوسکی تھی اور اسی درمیان سابق چیف جسٹس آف انڈیا سبکدوش ہوگئے۔
اب جب کہ حالات میں سدھار ہورہا ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اپنا چارج لے لیا ہے۔ عدالت سے جلد از جلد سماعت کی درخواست کی گئی تھی۔
سماعت کی جلد از جلد درخواست کو سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے ستمبر میں بحث کا حتمی وقت دیا ہے۔ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کرنے کے بعد اور صارفین کی شکایت پر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی (NBSA) نے تین چینلوں ٹائمس ناؤ، نیوز18 اور سوارنا نیوز چینل پر ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ جب کہ زی نیوز، آج تک اور دیگر چینلوں نے معافی مانگی تھی۔