۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ایوارڈ

حوزہ/ جمیعت علماء ہند کے صوبائی صدر قاری محترم مولانا محمد ادریس مہاراشٹر نے حجۃ الاسلام سید محمد اسلم رضوی رئیس شیعہ علماء بورڈ مہاراشٹر ہند کی خدمت میں ایوارڈ دیکر دنیائے عالم میں ایک اتحاد کا بڑا پیغام دیا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام الجماعت مسجد شیعہ و امام بارگاہ قلعہ رامپور ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنؤ مولانا سید محمد زمان باقری رامپور نے جمیعت علماء ہند پونہ مہاراشٹر کی جانب سے حجۃ الاسلام سید محمد اسلم رضوی رئیس شیعہ علماء مہارا شٹر ہند کو ایوارڈ دینے پر تبریک و سراہتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ رب العزت اپنے کلام لازوال میں ارشاد فرما رہا ہے اور نبی کریم کا کلمہ پڑھنے والے ہر مسلمان سے خطاب ہو رہا ہے کہ" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو۔ آپس میں اختلاف نہیں کرو "اسی قرآن کریم کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیائے جگت میں ہندوستان کی ایک عظیم المرتبت جمیعت جو پورے ہندوستان میں غرباء یتیموں ومساکین بیوہ گان بے سہارا بیمار افراد کا ہر طرح سے بغیر کسی بھید بھاؤ مسالک کے پورے سال مدد و کمک جیسی خدمات انجام دیتی ہے۔ اسی جمیعت علماء ہند کے صوبائی صدر قاری محترم مولانا محمد ادریس مہاراشٹر نے حجۃ الاسلام سید محمد اسلم رضوی رئیس شیعہ علماء بورڈ مہارا شٹر ہند کی خدمت میں کثیر علماء و جمیعت کے بے شمار کارکنان مومنین کی موجودگی میں اپنے مقدس ہاتھوں سے ایوارڈ دیکر دنیائے عالم میں ایک اتحاد کا بڑاپیغام دیا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ خدائے منان کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ اس اتحاد بین المسلمین کو کسی کی نظر نہ لگے اور یہ سلسلہ قائم مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے آنے تک قائم رہے اور پرچم اسلام ہمہ وقت سر بلند رہے جہاں تک بندہ ناچیز نے دیکھا شاید یہ مبالغہ نہ ہو کہ اتحاد کے سلسلے سے بڑی بڑی عظیم المرتبت شخصیات نے قدم پڑھائے مگر کسی نے ایوارڈ سے کسی کو نہیں نوازا یہ بے مثال اور قابل تعریف کارنامہ جمیعت علماء ہند کے محترم صدر قاری مولانا محمد ادریس دامت برکاتہ نے ایک عظیم نظیر قائم کی بہتر ہے اس طرح سے یہ سلسلہ پورے ملک میں قائم رہے اپنے اپنے عقائد پر اپنے مسائل کے اعتبار سے عمل کرتے ہوئے قرآن کریم کو تیس پاروں ایک سو چودہ سوروں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات اور کعبۃ اللہ نبی کریم آسمانی کتب اربعہ پر عقیدہ رکھتے ہوئےآپس میں ایک دوسرے کی بزرگ شخصیات کا ادب و احترام کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی اولاد مانتے اور جانتے ہوئے آپس میں بھائی چارہ قائم رکھتے ہوئے اپنی بھی حفاظت کریں اور دین نبی واولادِحضرت آدم و حوا کی جان و مال کی بھی حفاظت کریں اور دنیائے جگت میں اتحاد کے ذریعے امن و امان کا پیغام دیتے رہیں۔

مزید کہا کہ دنیائے جہان میں لوگوں کے درمیان سیرت نبی کریم ص پر عمل کرتے ہوئے اور اس پر چل کر بتلائیں کہ واقعی یہ اس نبی کے چاہنے والے اور ماننے والے ہیں جس نے اپنی سیرت و کردار کو دشمنوں کے سامنے تئیس سالہ زندگی غار حراء سے نکلنے کے بعد پہلے پہل قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے اس طرح سے گزاری جو مدینے میں رہنے والے دشمن آپ کے تھے جنہوں نے غار حراء سے نکلنے کے بعد نبی کریم پر پتھر برسائے ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے تھے ان کو طرح طرح کے طعنے اور دشنام سے یاد کرتے تھے انصاف اور تاریخ کا دنیا ے عالم کا تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ جو جتنی بڑی شخصیت ہوتی ہے اس کا اسی انداز سے پر جوش طریقہ سے استقبال ہوتا ہے پھر اس کی آمد پر لوگوں کے ہاتھوں میں پھول ہوتے ہیں جو اس شخصیت کی گل پوشی کرتے ہیں اور اس پر نچھاور کرتے ہیں مگر یہ طریقہ کچھ نبی کریم کے ساتھ ان دشمنوں نے الگ طرح کا انجام دیا لا کھو ں درودو سلام ہو ں اس خلق اول اور نور اول پر جس نے اپنوں کو ہی اپنا گرویدہ نہیں بنایا بلکہ تئیس سالہ زندگی دشمنوں کے درمیان سادگی کے عالم میں گزار کر اس طرح سے ان کو اپنے اخلاق و کردار سے ایسا بنا لیا کہ اب نبی جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ان کے حکم پر لبیک کہتے ہیں صادق و امین کا خطاب دے کر یاد کرتے ہیں آخر وہ کون سی چیزیں تھیں جس کی وجہ سے نبی کریم کے دشمن خود ان پر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہو گئے۔

یاد رکھیے نبی کریم نے ان دشمنوں کے درمیان کچھ اس طرح کی سیرت پیش کی جو ہمارے ہر فرد کے لئے عبرت اور عمل کا مقام ہے پہلے پہل جنہوں نے نبی کریم کا بائیکاٹ کیا ان سے تعلقات رکھنے گوارہ نہیں کیے نبی نے ان سے کبھی اپنے تعلقات توڑے نہیں بلکہ قائم رکھے نبی نے ان کا کبھی بائیکاٹ نہیں کیا دوسری چیز نبی کریم کے در دولت پر جو بھی آیا اس کو دست خالی نہیں لوٹایا چاہے مستحق ہو یا غیر مستحق آجکل کار خیر انجام دینے والے دس جگہ تحقیق کرتے ہیں اور مستحق غیر مستحق کا فیصلہ لے کر تب کہیں جا کر کچھ احسان غریبوں پر فرماتے ہیں جبکہ دائیں ہاتھ سے دے رہے ہو تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونے پائے مگر افسوس لینے والا ایک ہوتا ہے اور دس دینے والے ہاتھ فوٹو میں نظر آتے ہیں ہم خود کو بھی اللہ کی بارگاہ میں رکھ کر دیکھیں کہ واقعی ہم ان چیزوں کے مستحق ہیں بھی کہ نہیں جو اللہ نے ہم کو دے رکھی ہیں جبکہ ہم سے صحیح سے نماز پڑھنے کا بھی طریقہ نہیں آتا پھر بھی وہ نوازتا ہے وہ کتنا بڑا کریم و رحیم ہےجو ہمارے غلط الفاظ کی ادائیگی پر بھی اپنی بے پناہ عنایتوں کو ہمارے ساتھ نوازے ہوئے ہے اور ان غلطیوں پر عذاب نازل نہیں کرتا جبکہ ہم کو صحیح طرح سے۔ قل۔ اور۔ کل ۔کا تلفظ بھی نہیں آتا اس جگہ پر امام سید سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھ کو ڈر اس بات کا ہے کہ اگر میں کسی کو کچھ دیبےغیر ٹال دوں ایسا نہ ہو کہ جب میں خود تیری بارگاہ میں دست سوال کروں اور تو مجھ کو خالی لوٹا دے نبی کریم کے در دولت پر جو بھی سوالی بنکرآیاآپ نے اس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا تیسری چیز نبی کریم کے اخلاق میں یہ تھی کہ جس نے آپ پر ظلم کیا آپنے اسکو معاف فرما دیا۔ یہ تین چیزیں اگر ہر انسان اپنی زندگی میں شامل فرما لے تو دعوی ہے کہ اس کا کوئی دشمن نہیں ہو سکتا

آخر میں انہوں نے کہا کہ مولانا قاری محمد ادریس صدر جمیعت علماء ہند مہاراشٹر نے مولانا اسلم رضوی کی کارکردگی اور عملی زندگی کا معائنہ کرتے ہوئے اپنے دست مبارک سے ان کو ایوارڈ سے نوازا میں اس موقع پر حجت الاسلام سید محمد اسلم رضوی رئیس شیعہ علماء بورڈ مہاراشٹر ہند کو لاکھوں مبارک باد پیش کرتا ہوں رب العزت ہم سب مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور میل ملاپ کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ سچے معنی میں ہم نبی کریم کے چاہنے اور ماننے والے قرار پائیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .