حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جسٹس ایس ایس شندے نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ اس طرح کی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر نُکڑ پر بیٹھ کر گلی سے دلی تک کی سیاست، ڈونالڈ ٹرمپ سے لے کر جو بائیڈن تک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر ایسی گفتگو کرتے رہتے ہیں لہذا ایسی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔
ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس جے این جمعدار کے روبرو ملزم اقبال احمد کی ضمانت عرضداشت پر بحث کرتے ہوئے سینیئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ پانچ سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ابھی تک ملزم کے مقدمہ کی سماعت شروع نہیں ہوئی ہے اور چارج شیٹ میں ایسا کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ ملزم نے بم بنایا تھا یا وہ کسی بھی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے گھر سے بیعت برآمد کرنے کا استغاثہ نے دعوی کیا ہے لیکن استغاثہ نے خود اپنی فرد جرم میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیعت دیگر ملزم رئیس احمد نے لکھی تھی اور وہ بیعت، ملزم ناصر یافعی کے اشارے پر ملزم اقبال کے گھر سے بر آمد کی گئی تھی۔
مہر دیسائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ بیعت کی قانونی حیثیت صفر ہے اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے بار ے میں گفتگو کرنا اور ان کی فکر کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔
ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے دوران بحث عدالت کو حالیہ سپریم کورٹ اور بامبے ہائی کورٹ کے فیصلوں کے حوالے سے بتایا کہ پانچ سال کا عرصہ جیل میں گذارنے اور ٹرائل شروع نہ ہونے کی بنیاد پر پہلے کئی ملزمین کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے لہٰذا اب بھی ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے۔
مہر دیسائی کی بحث کے اختتام کے بعد این آئی اے کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین ملک و بیرون ملک مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور وہ اس کا بدلا لینا چاہتے تھے۔ اس پر جسٹس شندے نے کہا کہ اس طرح کی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر نُکڑ پر بیٹھ کر گلی سے دلی تک کی سیاست، ڈونالڈ ٹرمپ سے لیکر جو بائیڈن تک کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں لوگ اکثر ایسی گفتگو کرتے رہتے ہیں لہذا ایسی گفتگو کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔
ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین بھارت میں بم دھماکہ کرنا چاہتے تھے اور چاروں ملزمین کا مقدمہ ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔ ملزم اقبال کے مقدمہ کو الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کے گھر سے بیعت کے علاوہ ملزمین ناصر یافعی اور شاہد خان نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ اقبال کے گھر پر بم بنایا گیا تھا۔
ایڈوکیٹ ارونا پائی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے بجائے عدالت کو نچلی عدالت کو چھ ماہ میں مقدمہ مکمل کرنے کا حکم دینا چاہیے جس پر جسٹس شندے نے کہا کہ ہم نے ماضی میں مختلف مواقع پر عدالتوں کو جلد از جلد سماعت مکمل کیے جانے کا حکم دیا لیکن ہمارے حکم کے باوجود عدالتیں مقررہ مدت میں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
اس پر آج فریقین کی بحث مکمل ہوگئی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ ملزم اقبال احمد کی ضمانت عرضداشت پر جمیعت العلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے بحث کی جبکہ ان کی معاونت ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ کرتیکا اگروال، ایڈوکیٹ قربان نے کی۔واضح رہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے ملزمین اقبال احمد، ناصر یافعی، رئیس الدین اور شاہد خان سمیت پر تعزیرات ہند کی دفعات 120(b),471,، یو اے پی اے کی دفعات 13,16,18,18(b), 20, 38, 39 اور دھماکہ خیز مادہ کی قانون کی دفعات 4,5,6 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے اور ان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ آئی ایس آئی ایس کے رکن ہیں اور بھارت میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ نیز انہوں داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا ہے اور اس تعلق سے عربی میں تحریر ا یک حلف نامہ (بیعت) بھی ضبط کرنے کا پولس نے دعوی کیا ہے۔
حالانکہ ملزمین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے جھوٹے مقدمہ میں ان کے بچوں کو گرفتار کیا ہے کیونکہ پولس نے ملزمین کے قبضہ سے ایسا کوئی بھی مواد ضبط نہیں کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ وہ ممنوع تنظیم داعش کے رابطہ میں تھے اور وہ بھارت میں کچھ گڑ بڑ کرنا چاہتے تھے بلکہ شوشل میڈیا اور یوٹیوب کی مبینہ سرگرمیوں کو گرفتاری کی وجہ بتایا گیا ہے۔