۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا ارشد مدنی

حوزہ/ اتر پردیش کے سیتاپور لو جہاد معاملے میں گذشتہ چار ماہ سے جیل میں مقید 6 ملزمین، جس میں دو خواتین بھی شامل ہیں، کو آج ستیاپور کی ٹرائل کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کے سیتاپور لو جہاد معاملے میں گذشتہ چار ماہ سے جیل میں مقید 6 ملزمین، جس میں دو خواتین بھی شامل ہیں، کو آج ستیاپور کی ٹرائل کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔

ٹرائل عدالت کے جج بھگوان داس گپتا نے ملزمین جنتن ابراہیم، افسر جہاں اسرائیل، شمشاد، رفیق اسماعیل، جاوید شاکر علی اور محمد عاقب منصوری کی ضمانت منظورکرلی ہے، جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ رضوان، ایڈوکیٹ مجاہد احمد اور ایڈوکیٹ فرقان خان نے ملزمین کی ضمانت کے لئے عرضی داخل کی تھی۔

دوران بحث ایڈوکیٹ رضوان اور ایڈوکیٹ فرقان خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ پولس نے عرضی گذار ملزمین کو حراست میں لیکر آئین ہند کے ذریعہ دی گئی ان کی شخصی آزادی ختم کردی ہے اور اس معاملے میں پولیس نے چارج شیٹ بھی داخل کردی ہے لہذا ملزمین کو فوراً ضمانت پر رہا کیا جائے۔

وکلاء نے عدالت کو بتایاکہ ملزمین کے خلاف 26 نومبر کو مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ 28 نومبر 2020 کو اتر پردیش کے گورنر آنندی بین پٹیل نے 'غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020' ( Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Conversion of Religion Ordinance, 2020) پر دستخط کئے، یعنی کہ اس مقدمہ پر غیر قانونی طور پر اس قانون کا اطلاق کیا گیا ہے جو غیر قانونی ہے، جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ لڑکی واپس آگئی ہے اور اس نے پولس کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسے جبراً مذہب تبدیل کرنے کے لئے اکسایا نہیں گیا ہے اور نہ ہی اس کا اغوا کیا گیا تھا لہذا لڑکی کے بیان کی روشنی میں ملزمین کو فو راً جیل سے رہا کیا جانا چاہیے، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزمین کو مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس قانون کے تحت یہ گرفتاریاں ہوئی تھیں وہ ملک کے آئین کے رہنما اصولوں کے سراسر خلاف ہے، اس لئے ہم ضمانت سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ ضمانت کی جگہ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ عدالت یہ مقدمہ خارج کر دیتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔

عدالتی نظام کی سست رفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پولس کسی بے گناہ کو ذاتی عناد یا تعصب کی بنا پر گرفتار کر کے جیل بھیج دے تو اس کو بھی انصاف کے حصول میں مہینوں اور سالوں لگ جاتے ہیں۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس معاملہ میں ملزم ٹہرائے گئے نوجوان کے پورے خاندان کو تعصب کی بنیاد پر پولس نے گرفتار کر لیا تھا، جن میں پردہ نشیں خواتین بھی شامل تھیں، انصاف اور قانون کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اصل ملزم کو ہی پولس گرفتار کرتی مگر اس نے فرقہ پرستوں کے دباؤ میں ان لوگوں کو ہی گرفتار کر لیا، جن کا کوئی جرم نہیں تھا، سوال یہ ہے کہ پولس نے مذکورہ خاندان کے ساتھ جو توہین آمیز سلوک کیا اس کی تلافی کس طرح ہوگی؟ کیا یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے؟ کیا یہ معزز عدالت کا فرض نہیں تھا کہ وہ پولس کو اس کے لئے سرزنش کرتی تاکہ آئندہ کے لئے یہ بات ایک نظیر بن جاتی اور پھر پولس کسی بے گناہ کو اس طرح ذلیل کرنے کا حوصلہ نہ کرپاتی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان کی رہائی کے احکامات تب جاری کئے جب لڑکی یہ بیان دے چکی ہے کہ اسے کسی نے نہیں بھگایا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئی تھی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس تعصب پر مبنی آئین مخالف قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، درمیان میں عدالتوں کے ذریعہ ریاستی حکومت کی نہ صرف سرزنش کی گئی بلکہ اس سے حلف نامہ داخل کرنے کو بھی کہا گیا مگر اس کے باوجود تبدیلی مذہب روکنے والے اس آڈیننس پر اب ریاستی گورنر سے بھی دستخط کرا لیا گیا ہے، اب تک اس نئے قانون کے تحت جتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور خود ریاستی حکومت نے عدالت کو جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں، اس کے مطابق ان گرفتاریوں میں 99 فیصد مسلمان ہیں، یہ بات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ قانون مسلم نوجوانوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کی غرض سے ہی لایا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ چھ ملزمین، جس میں دو خواتین بھی ہیں، کی ضمانت منظور ہونے پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر لکھنؤ ہائی کورٹ میں ملزمین کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرنے کی پٹیشن داخل کی گئی ہے لیکن سنوائی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی درخواست عدالت میں داخل کی گئی تھی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں راحت دی ہے۔ بقیہ ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت بھی داخل کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ تمبور تھانہ میں شرویش کمار شکلا نے اپنی انیس سالہ بیٹی کے کسی کے ساتھ فرار ہو جانے کی ایف آئی آر 26 نومبر 2020 کو درج کرائی تھی، پولس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ جبرئیل نامی نوجوان سے اس کی دوستی تھی اور دونوں ساتھ میں فرار ہوئے ہیں۔ مقامی تھانہ دار نے جبرئیل کے پورے خاندان کو ایف آئی آر میں نامزد کر دیا اور باری باری کنبہ کے تمام افراد بشمول دو خواتین کے گرفتار کر لیا تھا، جن میں سے آج چھ کی ضمانت ہو چکی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .