حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا تقی عباس رضوی نے نیمہ شعبان کے حوالے سے تہنیت و تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ معشوق کی شناخت عاشق کا دین و ایمان ہے اور اس کی عدم شناخت، بے دینی اور جہالت کا منھ بولتا ثبوت ہے کیونکہ قائدہ کلیہ ہے کہ:إن المحب لمن یحب مطیعٗ... مُــــــحب اپنے مـــــحبوب اور ہر عــــــاشق اپنے مـــــعشوق کی رضامندی اور اسکے فــــــرمان کا مــــــطیع ہوتا ہے۔
ہجر میں لذّتِ طلب
ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک
انہوں نے کہا کہ کائنات عشق اور وادئ محبت میں ایسا کون ہے جو اپنے قرار دل اور جان سے زیادہ عزیز ہستی کے بارے میں سننا یا سنانا نہیں چاہتا۔ ایک عاشق کے لئے یہی لذت حیات کافی ہے کہ اس کے سامنے اس کے معشوق و محبوب کی باتیں ، اس کی توصیف اور اس کا تذکرہ چلتا رہے ۔گویا " عاشق محو عشق و عشق محو در معشوق کی کیفیت طاری ہے۔
محبوب کے تذکرے کی اس روایت میں ہم بھی ایک عرصہ دراز سے اپنی حصے داری نبھاتے یہ آواز دیتے چلے آ رہے ہیں کہ:
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
کے ساتھ ہی گزاری ہے
مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ۱۵ شعبان ۲۵۵ هـ سے اب تک ہم مولیان اہل بیت علیہم السلام نے بھی اپنے محبوب کی مختلف جہتوں کو موضوع بنا بنا کر اپنے سوز و ساز، آہ و فریاد، ہجر و فراق اور فرقت و جدایی کے نغمے سنا سنا اپنے ملول دل کو بہلانے کا کام کیا ہے کہ
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
یقیناً! وہ بد نصیب ہے جس کے دل میں اپنے محبوب سے دوری کے احساس نہ ہو!
انہوں نے کہا کہ ماہ شعبان کی پندرھویں اس کائنات کی سب سے محبوب ترین شخصیت، ولی نعمت، منجی عالم بشریت، مینارہ رشد و ہدایت حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی عظیم المرتبت شب ہے جو ان کے چاہنے والوں اور ان کے ظہور کے منتظرین کے لئے لیلۃ القدر کی رات سے کم نہیں۔
ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم عصر ظهور میں اپنے محبوب کی شناخت رکھتے اور اس کی مودت و اطاعت پر نازاں،اس کی عالمی حکومت، عالمی عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی اور آئیڈیل سماج کے قیام پر محکم ایمان رکھتے ہوئے بڑے ادب و احترام سے یہ عرض کرتے ہیں کہ
کیوں نہ ہو شوق ترے در پہ جبیں سائی کا
اس میں جوہر ہے مری آئینہ سیمائی کا
تیرے دیدار سے محروم رہیں جب آنکھیں
کوئی مصرف ہی نہیں پھر مری بینائی کا
یہی عقیدت ایک سچے عاشق کا طرہ امتیاز ہے اور جو اپنے محبوب کی شناخت نہیں رکھتا اس کا دعوٰی محبت اس کے ذکر و فکر اور اتباع و اطاعت کے بغیر فضول ہے...
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ بے صدا ہو جاؤں.
«الهم عرفنی حجتك فانك ان لم تعرفنی حجتك خللت عن ديني.....
مولانا تقی عباس نے کہا کہ موجودہ دور میں اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے اور اپنے کھوئے وقار کے حصول یابی کے لئے گہری سیاسی بصیرت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود جہل و نادانی کی تیرگی کو اپنے علم و دانایی کے نور سے منور
کیجئے....کہ یہی عصر غیبت میں منتظران قائم آل محمد علیہم السلام کی اہم ترین ذمہ داری ہے
کردار سے بنائیں، معیارِ زندگی
ماحول سے حیات کا , سودا نہ کیجئے
مزید بیان کیا کہ قائم آلِ محمد حضرت امام عصر علیہ السلام کے تعجیل فرج کے لئے ہمیں اپنے گھر و خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے روز مرہ زندگی کے ہر شعبے میں قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل درآمد ہوتے ہوئے ایک صالح معاشرے کے قیام و استحکام کے لئے اپنا مثبت کردار اداکریں
جیسا کہ حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:
"جب ہمارے قائم قیام کریں گے حکومت کو عدل کی بنیاد پر قائم کریں گے اور ظلم کی بساط ان کے دور میں لپیٹ دی جائے گی اور سڑکیں ان کے وجود کی برکت سے پرامن ہونگی اور زمین اپنی برکتیں ظاہر کرے گی اور ہر صاحب حق کو اس کا حق لوٹا دیا جائے گا اور امام (عج) داۆد اور محمد (ص) کی مانند فیصلے کریں گے اور کسی کو بھی حاجتمند شخص نہ ملے گا جس کو وہ انفاق اور صدقہ دے اور اس کی مالی مدد کرے کینوکہ سب بےنیاز ہوچکے ہونگے۔ اللھم عجل لولیک الفرج