۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ہولی کی ٹوپیاں

حوزہ/ریاست اترپردیش کے ضلع امروہہ سے تعلق رکھنے والے مرزا نسیم بیگ کا خاندان آزادی کے وقت سے ہی ہاتھ سے ہولی کی ٹوپیاں بنا کر ہولی میں رنگ بھر رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کورونا وبا نے نہ صرف عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کی وجہ سے لاکھوں افراد کا کاروبار بھی شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ایسی ہی ایک کہانی اترپردیش کے امروہہ کے ٹوپی کے تاجر مرزا نسیم بیگ کی ہے جن کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔ یہ مسلم خاندان آزادی کے وقت سے ہی ہاتھ سے ٹوپیاں بنا کر ہولی میں رنگ بھر رہا ہے۔

امروہہ شہر کے محلہ بٹوال جاتے ہی گنگا۔ جمنی تہذیب کا انوکھا رنگ نظر آتا ہے۔ یہاں رہنے والے نسیم کا خاندان اس شہر میں کئی دہائیوں سے ہولی کی ٹوپیاں بنا رہا ہے۔ تقریباً چھ سات دہائیوں سے یہ مسلم کنبہ ہاتھ سے ہولی کی ٹوپیاں بنا رہا ہے جسے پورے ملک میں سپلائی کیا جاتا ہے۔

muslim family make holi cap in amroha

مرزا نسیم بیگ کا کہنا ہے کہ ہمارے نانا یہ کام کیا کرتے تھے، ہمارے والد بھی یہ کام کرتے تھے، اب میں یہ کام کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے میرے بچے بھی یہی کام کریں۔

ہولی سے دو ماہ قبل ٹوپی تیار کرنے کا کام شروع ہوتا ہے لیکن نسیم کا کہنا ہے کہ اس بار کورونا نے ہماری کمر توڑ دی ہے۔

کورونا کی وجہ سے اس بار ہولی کی ٹوپیوں کی مانگ بہت کم ہوگئی ہے۔ یہاں ہر سال تقریباً دس لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا تھا لیکن اس بار فروخت میں کمی آئی ہے جو ٹوپیاں ہم نے بنائی ہیں، وہ بھی اسٹاک میں موجود ہیں۔

muslim family make holi cap in amroha

نسیم کا کہنا ہے کہ اب انہیں پنچایت انتخابات سے کچھ امید ہے جس میں وہ انتخابی نشان کے ساتھ ٹوپیاں بنائیں گے۔ خواتین بھی نسیم کے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ نسیم ٹوپیاں کاٹتے ہیں اور پھر خواتین انہیں سلائی کر کے تیار کرتی ہیں۔ اس میں بہت کم مارجن ہے لیکن بزرگوں اور خالی بیٹھی خواتین کے لئے یہ کام دستیاب ہے۔ انہیں 10 سے 20 روپے کا منافع ملتا ہے لیکن اب وہ بھی رک گیا ہے۔

یہاں تیار کی جانے والی ٹوپی اترپردیش کے بیشتر اضلاع میں بھیجی جاتی ہیں اور لوگ ہولی پر رنگین ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ یہ ٹوپیاں دیکھنے میں بہت دلکش ہوتی ہیں۔

holi cap

مرزا کہتے ہیں کہ اس سال بہت نقصان ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بہت سارے دکاندار پیسے لے کر بھاگ گئے۔ ہمارا سامان دہلی، لکھنؤ، کانپور کے علاوہ ہر جگہ جاتا تھا۔ اس بار کہیں نہیں گیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .