۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید محمد زمان باقری

حوزہ/ ہم اس منتظر کے منتظر تو ہیں مگر کیا اپنے آپ کو اس قابل بنایا بھی ہے کہ ہم ان کی فوج میں داخل ہو سکیں اور وہ ہم کو دیکھ کر اپنا کہہ سکیں کیا ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ ہم اس کے روبرو ہو کر اپنی محبت کا ثبوت دے سکیں اگر یہ تمام باتیں ہم میں نہیں پائی جاتی ہیں تو آج ہی ہم کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ اپنے کردار و افعال کو اتنا بلند کریں کہ لوگ دیکھتے ہی یہ کہہ اٹھیں کہ ہاں یہ سپاہ امام مھدی کا ایک جوان ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد زمان باقری ممبر آف آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنؤ و امام جمعہ و الجماعت مسجد شیعہ و امام باڑہ قلعہ معلیٰ رام پور نے کہا کہ آج اس پر آشوب دور میں جبکہ ہر طرف ظلم و زیادتی کا بول بالا ہے حیات انسانی سمٹ کر رہ گئی ہے حقوق انسانی پائمال کئے جا رہے ہیں جس طرف نگاہ اٹھاؤ ہر طرف سسکتی ہوئی زندگی اور لزرتے ہوئے رشتہ نگاہوں کے سامنے دم بدم آتے رہتے ہیں کہیں جلتا ہوا مکان تو کہیں سسکتی ہوئی زندگی رشتوں کی ڈوبتی ہوئی نبض جس میں حقوق انسانی حالت احتضار میں پہنچی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جس کے ذریعہ بھائی بھائی میں الفت نہ رہی بہن کی عصمت کا خیال نہ رہا والدین کی عظمت سے کنارہ کشی تو ہمسایوں سے بیگانگی کا اظہار نہ دوستوں سے رواداری رہی نہ استاد کا کچھ خیال نہ حرام و حلال میں کوئی فرق نہ خدا کا کوئی خوف بلکہ ہر فرد الفت کا گلا گھونٹ کر رشتوں کو دفن کرکے اپنے آرزوؤں کے پرچم کو لہرانا چاہتا ہے ۔ شاید اس کا یہ خیال ایک حد تک درست بھی ہو کیونکہ اس نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں نہ تو الفت ہے اور نہ ہمدردی ، نہ رواداری ، نہ بھائی چارگی۔ بس ترقی اور اقتدار میں اضافہ کی للک۔ اگر یہ حالت آج رونما ہو رہے ہیں تو اس کے پیچھے مذہب سے بیگانگی کا راز پوشیدہ ہے کیونکہ انسان نے مذہب کو بالائے طاق رکھ دیا اور دوسروں کی تہذیب کو گلے لگایا ورنہ وہ اسلام جس کے نمائندے نے یہ کہا ہو کہ مسلمان وہ نہیں کہ جس کے ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوط رہیں بلکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے بھی لوگ محفوظ رہیں جس مذہب میں یہ کہا جا رہا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری قوم کو قتل کر دیا اور جس نے ایک شخص کو بچا یا اس نے پوری قوم کو بچایا۔ جس مذہب کے ایسے اصول ہوں اس مذہب کے ماننے والوں میں دہشت و وحشت وخوں ریزی نظر آتی ہے اس کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو مانتے تو ہیں پر ان کا حقیقت میں اس مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔

جب ایسے حالات رونما ہونے لگے اور زندگی جل کر راکھ ہونے لگی ہر سمت خون کی بارش اقتدار کی ہوس میں ہونے لگی جرائم بنام مذہب عروج پانے لگے معصیت میں ملوث افراد بر سر اقتدار نظر آنے لگے  دروغ بازی سے کام لینے والے آج معزز ہوںگئے جن کو خود زموز اوقات قرآ ن و تجوید قرآن فقہ کے مسائل سے کوسو دور کی جانکاری نہیں وہ مساجد کے آئمہ حضرات کا داخل و خارج کرنے لگے ایسا لگتا ہے جیسا کہ روزی کے دینے والے یہی ہیں خدائے اکبر و رازق مطلق کا کوئی وجود نہیں اور بے چارے مومن افراد گوشہ نشینی کی زندگی خوف خدا میں بسر کرکے اپنے اخلاق و کردار کے ذریعہ پیغام خدا کو پہونچانے کی ہر چند کوشش کرتے ہوئے مگر ان کو بھی اہل زمانہ سکون اطمینان کی سانس نہیں لینے دیتے کبھی مسجد میں نمازیوں کا خون بہایا جاتا ہے تو کسی امام بارگاہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے مزارات کو ہدف بنا کر مسمار کرنے کی ناپاک سازشیں روز بروز کی جا رہی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد راہ حق میں اپنی جان نثار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جب یہ طوفان اٹھنے لگے زندگی تنگ ہونے لگی رشتے ٹوٹنے لگے سماج کا گلشن بکھرنے لگا بھائی چارگی کی خوشبو رخصت ہو نے لگی اور الفت کی حنا کا رنگ پھیکا پڑنے لگا گویا ہر آدمی ایک دوسرے کا حریف بن گیا اور آخر میں ہر ایک کی زبان پر بس جملہ ہوگا کہ کون ہے جو اس ظلم و زیادتی سے ہم کو نجات دے۔ یا اللہ بھیج کوئی نمائندہ جو ان باطل پرستوں کو نیست و نابود کرے اور ہم کو راہ حق پر گامزن رہنے کی ہدایت فرما اور اسلام پر باقی رکھ مگر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کون آئیگا؟ کون اس زمانے کی آفتوں میں پھنسی کشتی کو نکالے گا؟ کیا وہ ہم میں سے ہوگا؟ کیا وہ ہمارے ہی صفات رکھے ہوگا؟ یہ تمام تر سوالات ذہن میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔کیوں کہ یہ تو امید ہے کہ ہر رات کے بعد ایک نیا سویرا نئی زندگی اور نئی امیدوں کو لے کر آتا ہے اور اب تو ظلم کی حد ہوچکی ہے لہٰذا خدا کے کسی خاص بندے کو اب آنا چاہئے تو اب اگر حضور کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث پر غور کر لیا جائے تو بات روز روشن کی طرح واضع ہو جاتی ہے کہ وہ کون اور کس کی نسل سے ہوگا اس کا نام کیا ہوگا اور وہ آنے کے بعد کیا کریگا؟

ام المومنین جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲۖ  کو فرماتے سنا ہے کہ امام مھدی میری عترت یعنی فاطمہ کی اولاد سے ہوگا۔ (جامع صغیر سیوطی صفحہ نمبر ١٦٠ طبع مصر و، مسند ابن جنیل جلد ١ صفحہ ٨٤ طبع مصر، سنن ابوداؤد حدیث نمبر ٤٢٨٤ صفحہ نمبر ٢٨٦ جلد نمبر ٤ مستدرک جلد ٤ صفحہ نمبر ٥٢٠ )

اور حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ امام مھدی  کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔(صحیح مسلم جلد نمبر ٢ صفحہ ٩٥، صحیح ترمزی صفحہ نمبر ٢٧٠ صحیح ابو داوؤد جلد ٢ صفحہ نمبر ٢١٠ ،جامع صغیر صفحہ نمبر ١٣٤)

آپنے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ امام مھدی  میرے خلیفہ کی حیثیت سے ظہور کریں گے اور جس طرح میرے ذریعہ سے دین اسلام کا آغاز ہوا سی طرح ان کے ذریعہ اس کا اختتام ہوگا۔ (کنز الحقائق صفحہ نمبر ٢٠٩)

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ۖ نے فرمایا  امام مھدی مجھ سے (میری نسل سے) ہوگا۔ اس کی پیشانی فراخ اور ناک بلند ہوگی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیگا جیسے کہ ظلم وجود سے بھری ہوگی (سنن ابوداوؤد صفحہ نمر ٢٨٧ حدیث نمبر ٤٢٨٥ جلد نمبر ٤) ظہور کے بعد ان کی فوراً بیعت کرنی چاہئے کیوں کہ وہ خدا کے خلیفہ ہوں گے (سنن ابن ماجد اردو صفحہ ٢٦١ طبع کراچی ١٣٧٧ھ) آپکا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے۔ 

محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی ابن موسیٰ ابن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن فاطمہ بنت محمد رسول اﷲۖ یعنی آپ فرزند رسول دلبندعلی اور نور نظر بتول ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ نسب کے اسماء کو اگر کسی مجنوں پر دم کر دیا جائے تو اسے یقیناً شفا حاصل ہوگی (مسند امام رضا)۔

امام مھدی  کی ولادت اور ان کی غیبت پر تمام فرقہ اسلامی متفق ہیں اور ان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں یہاں پر چند علمائے اہل سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اور مختصر اقوال کے درج کرتے ہیں:ـ

١ـ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کتاب المطالب السئول میں فرماتے ہیں کہ امام مھدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں جو بغداد سے ٢٠ فرسخ کے فاصلہ پر ہے،

٢ـ علامہ شیخ عبد اﷲابن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالید میں ہے کہ امام مھدی کا نام اور کنیت ابو القاسم ہے آپ آخری زمانہ میں ظہور و خروج کریں گے۔

٣ـ علامہ شیخ عبد الوہاب شہرانی اپنی کتاب الیوقیت وا لجواہر میں تحریری کرتے ہیں کہ امام مھدی  ١٥ شعبا ن ٢٥٥   ھ میں پیدا ہوئے۔

٤ـ علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الائمہ میںامام مھدی ١٥ شعبا ن ٢٥٥  ھ میں پیدا ہوئے امام حسن عسکری  نے ان کے کان میں اذان و اقامت کہی۔

٥ـ علامہ شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیر بحر مواج کی کتاب ہدایة السعداء میں ہے کہ خلافت رسولۖ حضرت علی کے واسطے سے امام مھدی تک پہنچی اورآپ ہی آخری امام ہیں۔ 

سوچئے کہ یہ سب کچھ صحیح ہے یا یہ صحیح نہیں؟ کہ حضرت امام حسن عسکری کے فرزند امام مھدی ١٥ شعبان المعظم ٢٥٥  ھ کو پیدا ہوئے حضرت نرجس خاتون نے اس امام ابن امام کی پرورش فرمائی آپ رسول اﷲۖ  کی صاحب زادی حضرت فاطمہ زہراۖ کے فرزند امام حسین  کی آٹھویں پشت میں تھے کم از کم پانچ سال تک اما م حسن عسکری کے ساتھ رہے گیارہویں امام کی شہادت کے بعد آپ نے لوگوں سے ملنا چھوڑا اور چار بزرگوںکے ذریعہ اپنے احکام نشر کئے۔ (٨ ربیع الاول ٢٦٠  ھ) کو امام حسن عسکری کے بعد آپ کا دور امامت شروع ہوا جناب عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان ، ابو القاسم حسین بن روح اور جناب علی بن محمد سمری رضوان اﷲعلیہم یکے بعد دیگر ے آپ کی طرف  سے نائب خاص مقرر ہوئے ۔ ١٥ شعبان المعظم ٣٢٩  ھ سے وہ دور شروع ہو ا جس میں حضرت حکم خدا سے پردۂ غیب میں تشریف لے گئے اور اب اس وقت تشریف لائیں گے جب یہ دنیا ظلم و ستم سے بھر جائے گی۔ 

غیب کبریٰ سے پہلے اصول اسلام احکام شریعت اور متعلقہ ضروریات کے بارے میں کافی و افی تعلیمات و تشریحات مرتب ہو چکے تھے۔ جس میں سے مستقل طور پر جناب برقی   کی المحاسن جناب کلینی  کی الکافی کا سب کو علم ہے۔ 

غیبت کبریٰ کے آغاز کی اطلاع جناب علی بن محمد سمری نے حضور امام کے اس فرمان کے بموجب لوگوں تک پہنچائی۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم علی بن محمد سمری! خدا تمہیں اور تمہارے دوستوں اور عزیزوں کو بہت زیادہ اجر رحمت فرمائے۔ اب تم چھ دن کے اندر اندر دنیا کو سے رحلت کرنے والے ہو لہٰذا تمام انتظامات مکمل لر لو اور اب اپنے بعد کسی کو وصی و جانشین مقرر نہ کرنا کیونکہ تمہاری وفات کے بعد مکمل غیبت کا وقت ہوگا۔ اب خدا کے حکم ہی سے ظہور ہوگا۔

قیامت سے پہلے حضرت امام مھدی آخر الزمان کا ظہور ہوگا اور ان کے سامنے حضرت عیسیٰ کی تشریف آوری ایک ہی واقعہ کے دو جز یئے ہیںجیسے رسول مقبول کی بعثت اور قرآن مجید کا نزول گویا ایک دعویٰ ہے دوسری دلیل ۔ اس طرح ہمارے امام کی تشریف آوری اور حضرت عیسیٰ کا آسمان سے اتر کر زمین پر آنا تمام انسانوں کے لئے آپکے امام برحق زندہ اور قائم ہونے پر دلیل ہوگا۔ جسے کوئی رد نہ کر سکے گا۔

حیات آئمہ میں امام پر بحث ہوئی ددر نبوت میں انبیاء کے دعوے زیر بحث آئے لوگوں نے جنوںکا انکار کیا بعض ذہن فرشتہ کے وجود سے انکار کرتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک آج کل صبح کی دو رکعتیں اور دفتر کاروبار کے وقت ظہر کی چار رکعتوں کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے حد یہ ہے نماز و روزہ حج اور قربانی زکوٰة  و خمس اور جہاد کے بارے میں روح مقصد اور مفہوم ہی قابل بحث ہیں خدا وند عالم کی قدرتیں دیکھ کر انکار تو مشکل ہے مگر اس کے اقرار میں تردد نظر آتا ہے۔  درحقیقت قرآن مجید پر اعتقاد رکھنے والا یہ بات مانتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں کیوں کہ خود قرآن مجید نے جناب مریم کی بات محفوط کی ہے ۔قرآن کریم سورہ آل عمران ، ''فرشتوں نے کہا مریم تمہیں  اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ وہ دنیا و آخرت میں صاحب شان ہوگا اور خدا کے مقربین میں سے ہوگا وہ گہوارے میں بھی اور بڑا ہو کر بھی لوگوں سے خطاب کریگا اورصالحین میں سے ہوگا ۔ مریم نے کہا پروردگار میرے یہاں لڑکا پیدا ہوگا مجھے تو کسی بشر نے چھوا بھی نہیں فرمایا خدا اسی طرح جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ تو جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اشارہ کرتا ہے ہو جا وہ فوراً وجود حاصل کر لیتی ہے۔''

آنحضرت ۖ نے فرمایا خدا کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے اس نے آدم کو فقط مٹی سے پیدا کیا تھا ان کے ماں باپ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

الغرض مختصر کرتے ہوئے ابو اسحاق سے روایت ہے کہ امام علی نے اپنے بیٹے حضرت امام حسن  کو دیکھ کر کہا کہ نبیۖ نے فرمایا ہے میرا یہ بیٹا سردار ہے اس کی صلب سے ایک مرد ہوگا جس کا  نام تمہارے نبی کے نام کے موافق ہوگا جو خلق میں آپ کے مشابہ ہوگا اور زمین کو عدل سے بھر دیگا۔

مندرجہ بالا احادیث و روایات سے یہ واضع ہوتا ہے کہ شاید اب وہ ساعت آ چکی ہے جس کا انتظار تمام اہل عالم کر رہے ہیں یعنی امام مھدی کے خروج کا وقت نزدیک ہے کیوںکہ اب زمانہ میں ہر سمت فتنہ سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اور جینا دشوار ہو رہاہے اسلام کی صحیح تصویر مسخ ہو رہی ہے اور فاسق و فاجر افرادعنان اسلام سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں مذہب کے نام پر جہاد کا نعرہ لگا کر بے گناہ لوگوں کا خون ناحق بہایا جا رہا ہے اور اس کا نام اسلام قرار دیا جا رہا ہے لہٰذا مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اس دنیا کو عدل و انصاف سے وہی بھر سکتا ہے جو رسولۖ  کا جانشین اور اولاد رسولۖ یعنی اولاد فاطمہ زہراۖ میں سے ہوگا وہ دنیا کوویسے ہی عدل سے بھر دیگا جیسے رسولۖ  کے زمانے میں امن کا بول بالا تھا اور سکون سے زندگی گذر رہی تھی عدل کا زمانہ نہ تھا اسی طریقہ سے اس دور میں بھی امن ہوگا اور پرچم حق سر بلند ہوگا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس منتظر کے منتظر تو ہیں مگر کیا اپنے آپ کو اس قابل بنایا بھی ہے کہ ہم ان کی فوج میں داخل ہو سکیں اور وہ ہم کو دیکھ کر اپنا کہہ سکیں کیا ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ ہم اس کے روبرو ہو کر اپنی محبت کا ثبوت دے سکیں اگر یہ تمام باتیں ہم میں نہیں پائی جاتی ہیں تو آج ہی ہم کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ اپنے کردار و افعال کو اتنا بلند کریں کہ لوگ دیکھتے ہی یہ کہہ اٹھیں کہ ہاں یہ سپاہ امام مھدی کا ایک جوان ہے کیا ہم نے ان کے آنے کا اہتمام کیا اگر نہیں تو ہم کوبارگاہ الٰہی میں دعا کرنا چاہئے کی امام مھدی کو جلد از جلد پردۂ غیب سے ہماری ہدایت کے لئے بھیج کیوںکہ اب ظلم بڑھ چکے ہیں اور بات اب تیری وحدانیت تک آ گئی ہے تیری پاک و پاکیزہ نازل کردہ آسمانی کتاب قرآن مجید پر شیطان صفت اعتراض کرنے لگے ہیں جو ابد سے ازل تک ہر مکتب فکر افراد کے لئے ہدایت بن کر ہادی کی حیثیت سے تونے نازل فرمائی جس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں اور اس کا ایک حرف تو کیا ایک زیر و زبر کو بدلنے یا  بڑھانے گھٹانے کا اختیار خود نبی اکرمۖ  کو بھی نہیں۔ لہٰذا اس رحمتہ للعا لمین  نے جا نشین  مجسمۂ رحمت کو بھیج تا کہ اس دنیا میں عدل و انصاف کا ماحول پھر سے ساز گار ہو سکے اور جن لوگوں نے عہد رسولۖ نہ دیکھا ہو وہ اس دور میں رہ کر رسولۖ  کے عہد کا اندازہ لگائیں۔

رب کائنات ہم کو صاحب ایمان اور حق کا پرستار اور محتاجوں کا ساتھ دینے والا بنادے منافقت اور منافرت سے ہم کو محفوظ فرما ! حق کے راستہ پر چلنے کی توفیق مرحمت فرما اور ایمان پر ہمارا خاتمہ فرما! آمین ثم آمین 

   

تبصرہ ارسال

You are replying to: .