۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید مراد رضا رضوی

حوزہ/ محبان ام الائمہ علیہم السلام تعلیمی وفلاحی ٹرسٹ کے صدر نے کہا کہ پہلی ہی ملاقات میں دل کو چھو لینے والی شخصیت کے مالک مولانا ولی رحمانی نفرتوں کے اس خون آشام وخونخوار دور میں مسلکی تعصب سے ماورا اور مافوق شضصیت کے حامل تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پٹنہ/ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری,آمیر شریعت امارت شرعیہ، خانقاہ رحمانیہ مونگیر کے سجادہ نشین اور کئی ملی اور ثقافتی تنظیم کے روح رواں حضرت مولانا ولی رحمانی کے دلخراش سانحہ ارتحال پر مجلس علما خطبا امامیہ بہار کے جنرل سکریٹری مولانا سید امانت حسین اور محبان ام الائمہ علیہم السلام تعلیمی وفلاحی ٹرسٹ کے صدر مولانا سید مراد رضا نے مشترکہ تعزیتی بیان میں مولانا مرحوم کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوے کہا کہ حضرت مولانا کی عبقری شخصیت بلا تفریق مذہب وملت ہر ذی شعور کے لیے علم وآگہی کا روشن منارہ تھی۔

مولانا امانت حسین نے بتایا کہ امارت شرعیہ بہار جھار کھنڈ کے امیر شریعت بننے کے بعد جب حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کے ہمراہ ان سے میری پہلی بار ملاقات ہوئی تو اس کے بعد ہر ملی مسئلہ میں وہ حقیر کو خصوصی طور ہر یہ کہہ کر یاد کرتے تھے کہ آپ جیسے وضعدار انسان اب بیت کم رہ گئے ہیں.مسلمانوں کی بیداری کے لیے کوشاں رہنے والی ذات سے آج ملت  مسلمہ محروم ہو چکی ہے.اب ایک اتھاہ سناٹا ہے .ابھی ڈاکٹر کلب کلب صادق کی وفات کا زخم مندمل نہیں ہو ہایا تھا کہ مسلم پرسنل  لاء بورڈ کے ایک اور روح رواں کی وفات حسرت آیات نےدلوں کے زخموں کو ہرا کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا ایک باغ وبہار شخصیت کے حامل تھے اسی لیے اگر ان کو ربیع القلوب کا خطاب دیاجاے تو غلط نہیں ہے۔

مولانا مراد رضا نے اپنے پریس نوٹ میں بتایا کہ پہلی ہی ملاقات میں دل کو چھو لینے والی شخصیت کے مالک مولانا ولی رحمانی نفرتوں کے اس خون آشام وخونخوار دور میں مسلکی تعصب سے ماورا اور مافوق شضصیت کے حامل تھے، میری ان سے صرف ایک ملاقات ہے لیکن یہ ملاقات صدیوں کی یادوں کے فانوس ایسےسجائے ہے جس کی لو شش جہات کو منور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ 14/جنوری2021کی بات ہے جب صبح سویرے مولانا امانت حسین کے ہمراہ مونگیر جاکر خانقاہرحمانیہ اور وہاں کی لائبریری کے دیدار کا شرف حاصل ہوا.جب مولانا ولی رحمانی سے ملاقات ہوئی تو پیکر انکسار کوہ وقار سے پہلی باردیدار شرف نصیب ہوا میں نے ششماہی ام الائمہ کے کئی شمارے پیش کیے تو انہوں نے اپنے بزرگوں کے رشحات قلم سے بہرہ مند فرمایا .یہ ملاقات چند ملی مسائل ہر ہونا طے پائی تھی .مجھے تعلیمی کیمپ کے لیے پٹنہ واپس ہونا تھا اس لیے مولانا موصوف کے اصرار کے باوجود نہیں ٹھہر پایا جس کا احساس اج بھی ٹیس کی طرح  قلب وجگر کو چھلنی کیے ہے
قوم وملت بلکہ انسانیت کے درد سے معمور قلب شخصیت کی خبر وفات سے ملکی بلکہ بین الاقومی پیمانہ پر ہندوستانی مسلمانوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی اب بہت مشکل ہے ڈاکٹر کلب صادق صاحب قبلہ کی وفات کے پانچ مہینے کے اندر ایک اور ضو فشاں چراغ کی خاموشی ملت مسلمہ کے کو ایک بار  پھر صف ماتم بچھانے کی دعوت دیتی ہے اور اس جاں گسل سانحہ کے کیے  یہی کہنا شاید مناسب ہوگا۔

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

مرحوم کی وفات حسرت آیات پر ملت مسلمہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوے خداے منان سے نعم البدل کی درخواست کرتے ہوے دعاگو ہیں کہ ان کو ان لوگوں کے ساتھ محشور کرے جن سے وہ محبت رکھتے تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .