حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دہلی/ جمعیۃ علمائے ہند نے تعلیمی وظائف دینے کا باضابطہ سلسلہ 2012 شروع کیا ہے۔ اس سے قبل بھی اسکالرشپ دی جاتی تھی لیکن انفرادی طور پر تھا لیکن اسے2012میں باضابطہ ایک کمیٹی ’امدادی تعلیمی فنڈ‘ کے نام سے قائم کرکے تعلیمی وظائف دینے کا سلسلہ شروع کیا جسے اس سال بڑھاکر ایک کروڑ روپے کی رقم کردی گئی ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ جو بھی جمعیۃ کے معیار پر پورا اترا ان سب کو وظیفہ دیاگیا ہے جن میں ہندو طالب علموں کی بھی بڑی تعداد ہے اورجتنے ہندو طالب اس کے معیار پر کھرے اترے ان سب کو اسکالر شپ دی گئی ہے۔ 2020/2021کے لئے 656طلبہ کو اسکالر شپ دی گئی ہے۔
جمعیۃ علمائے ہند جن کورسوں کے لئے اسکالر شپ دیتی ہے ان میں میڈیکل، ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی یو ایم ایس، ایم ڈی، فارمیسی، نرسنگ، انجینئرنگ، بی ٹیک، ایم ٹیک، پالی ٹیکنک، گریجویشن میں بی ایس سی،بی کام، بی اے، بی بی اے،بی سی اے،ماس کمیونی کیشن، ایم اے میں ایم کام،ایم ایس سی، ایم سی اے، ڈپلوما، پولی ٹیکنک، آئی ٹی آئی، بی ایڈ، ایم ایڈ، ڈی لیڈوغیرہ شامل ہیں۔
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے تعلیمی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تعلیم کے مد میں بجٹ میں دوگنا اضافہ کرتے ہوئے اس کی رقم ایک کروڑ روپے کردی ہے۔ مولانا مدنی کا احساس ہے کہ تعلیم کے بغیر قوم اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی اور اس کے لئے ذات پات، مذہب اور علاقہ سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جمعیۃ کی خاصیت رہی ہے کہ وہ ہرشعبے میں کام کرتی ہے، جہاں ایک طرف بے گناہوں کو جیل سے رہا کرواتی ہے وہیں بازآبادکاری کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند روز اول سے تعلیم کی ترویج واشاعت پر نہ صرف زوردے رہی ہے بلکہ والدین کو اس بات کے لئے مسلسل تحریک بھی دیتی رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہرصورت زیورتعلیم سے آراستہ کریں۔ اس لئے ایک طرف جہاں یہ مکاتب ومدارس یہ قائم کررہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زوردینا شروع کردیا ہے جو روزگارفراہم کرتاہے۔ جمعیۃ کی ضرورت مندطلبہ کو یہ تعلیمی وظائف دینے کا مقصد یہ ہے کہ وسائل کی کمی یاغربت کی وجہ سے ذہین اور ہونہاربچے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ایسے دور میں جب کہ پانی پینے پرمذہب پوچھ کرزدوکوب کیا جاتا ہے ایسے ہمیں جمعیۃ کی مذہب سے اوپر اٹھ کر تعلیمی مہم ملک کو نیا راستہ دکھائے گی اور ہم تعلیم اور رفاہی کاموں کے ذریعہ نفرت کے زہر کو مٹانے کی کوشش کریں گے تاکہ آگے کسی کو محض مذہب کی بنیاد پر پانی پینے پر زدو کوب نہ کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ ملک کی شناخت گنگا جمنی تہذیب سے ہے اور اس طرح کے تکلیف واقعات سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
فرقہ پرستی کوملک کیلئے زہر ہلال قرار دیتے ہوئے کہاکہ فرقہ پرستی نے ملک کو ترقی سے دور کردیا ہے اور اس قدر نفرت پھیل چکی ہے کہ بات بات پرلوگ تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اسے تعلیم اور فلاحی کاموں سے ہی روکا جاسکتا ہے۔