حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی نے کہا کہ قرآن کریم کی بعض آیات کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے جس طرح عدالت میں انہیں قرآن سے نکالنے کے لئیے عرضی داخل کی گئی ہے اس کو لیکر مسلسل احتجاج ہو رہا ہے قرآن کی محبت جسکے دل میں بھی ہے وہ سراپا احتجاج بنا ہوا ہے مظاہرے ہو رہے ہیں قانونی کاروائیوں کے لئیے ماہرین قانون تیاریوں میں لگے ہیں ایسے میں جو ایک چیز میرے لئے باعث تعجب ہے وہ ملک کے وزیر اعظم کی توہین کا مسئلہ ہے جسے سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے جبکہ یہ تو بھکتوں کے لئے ناقابل معافی جرم ہونا چاہیے تھا ۔آپ سوچ رہے ہونگے قرآن کریم کے سلسلہ سے داخل ہونے والی عرضی کا ملک کے موجودہ وزیر اعظم کی توہین سے کیا تعلق ہے تو اس تعلق کو سمجھنے کے لئے آپکو ذرا تاریخ کی ورق گردانی کرنا ہوگی تو آئیے میرے ساتھ ۔
بظاہر تاریخ ہے 3 مارچ 2018 کی موقع ہے وگیان بھون میں شاہ اردن کی موجودگی میں اسلامی ورثہ اور مفاہمت کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس کا جس میں کہے گئے وزیر اعظم کے یہ الفاظ آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں اس موقع پروزیراعظم نریندر مودی نے کچھ یوں کہا تھا " بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں بلکہ یہ لڑائی منفی 'ذہنیت' کے خلاف ہے۔یہ رشیوں منیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے جہاں سے دنیا بھر میں امن کا پیغام پہنچتا ہے میرا خواب ہے کہ مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہو*". اور ایسا بھی نہیں کہ یہ وزیر اعظم نے پہلی بار کہا ہو بلکہ اس سے قبل بھی ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی اسی قسم کے ملتے جلتے الفاظ کہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک کے وزیر اعظم اتنے بے خبر ہیں کہ انہیں نہیں پتہ ایک طرف تو وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے عزم کا اعلان کر رہے ہیں دوسری طرف اس کتاب کو کمپیوٹر کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں میں بھی دیکھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں جس کے سلسلہ سے ایک ناعاقبت اندیش نے حال ہی میں عرضی داخل کی ہے کہ اسکی بعض آیات کو اس لئیے نکال دیا جائے کہ ان سے دہشت گردی کی ترویج ہوتی ہے ۔
کیا اس قسم کی عرضی داخل کرنا ملک کے وزیر اعظم کو چِڑھانا نہیں ہے کہ آپ تو یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں میں قرآن و کمپیوٹر ہو لیکن خود آپ نے قرآن پڑھا ہی نہیں ہے۔اس کی 26 آیتیں تو دہشت گردی پھیلاتی ہیں ۔
اب اس منھ چڑھانے کی کیا سزا ہو سکتی ہے یہ تو عدالت ہی بتا سکتی ہے۔ لیکن قرآن کی توہین کے اس عمل نے اتنا تو واضح کر دیا کہ ہندوستان میں ایک ایسی عجیب الخلقت مخلوق بھی ہے جسے حکومت زبردست تحفظ فراہم کر رہی ہے اور اس عجیب الخلقت مخلوق کو پتہ ہی نہیں اسکو مسودہ لکھ کر دینے والے پہلے کیا لکھ چکے ہیں وہ بھی کس سطح پر۔اس مخلوق کا بھی عجب حال ہے یہ ہر پارٹی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور سیاست کے گٹر میں کوئی نہیں دیکھتا یہ عجیب الخلقت مخلوق مردار کی صورت پہلے کہاں سڑ رہی تھی ہر ایک کو مردہ خواری کی عادت جو پڑ چکی ہے۔