۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حجت الاسلام تقی عباس رضوی

حوزہ/ ہمارے نوجوان اپنے دین و ایمان اور یقین کی معرفت ابوالفضل العباس علیہ السلام سے آبیاری کریں، تم سے روحِ مولا عباس ؑ خراجِ اطاعت کی طالب ہے کہ تم بھی خدا،برسولؐ اور اپنے وقت کے امامؑ کی اطاعت و اتباع  اور عہدِ وفا کی صلابت میں فولاد و آہن، کرم کی لطافت میں رحمت مکمل بن کر جینا سیکھو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی، نائب صدر اہل بیت علیہم السلام فاؤنڈیشن نے ۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام کی مناسبت پر تبریک و تہنیت پیش کرنے ہوئے کہا کہ قمر بنی ہاشم  حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے کردار کی عظمت امامؑ وقت کی محبت، اطاعت، اتباع اور تعظیم میں مضمر ہے اور اس کا پتہ اس وقت چلا ہے کہ جب ۲۸ رجب سن ۶۰ ہجری کو امام حسین ؑنے اپنے سفر کا قصد کیا ہے تو مدینہ اور اطراف مدینہ کے سارے لوگ کچھ نہ کچھ امام کی بارگاہ میں اپنے آرا و نظریات پیش کئےہیں مگر ایک واحد شخصیت حضرت عباس علیہ السلام کی ہے جو سراپا  امام وقت کی محبت و اطاعت اور فرمانبرداری سے عبارت دکھتی ہے۔ان کے وجود مبارک خدا،رسولؐ اور امامؑ کی تعلیمات کا رنگ نظر آتا ہے۔اور یہی سیرت و کردار ہمیں مولائے متقیان میں دکھتا ہے کہ آپؑ نے کبھی کسی محاذ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اور ان کی پوری حیات طیبہ میں اپنے آرا و نظریات پیش نہیں کئے اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آپ ؑ سے جو بھی احادیث اور روایات حتی نہج البلاغہ جیسی عظیم کتاب میں جو فرمودات ملتے ہیں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کے بعد کے ہیں کیونکہ آپ ؑ اللہ کے سراپا مطیع و فرمانبردار بندے تھے ۔آپ ؑ ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ :"اَنَا عَبدٌ مِن عَبِیدِ مُحَمَّد" میں محمد کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔ 

جو سیرت باپ کی تھی وہی سیرت بیٹے کی ہے وہ بھی وقت کے امام  کے مطیع یہ بھی اپنے وقت کے امام کے اطاعت گزار  حالانکہ امام سجاد ؑ نے مولا عباس  کو ’’نافذ البصیرہ ‘‘ کے عظیم الفاظ سے یاد کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ ٍوقت کے جلیل القدر صاحب علم و کمال ہونے کے  آپ ؑ اپنے زمانے کے نہایت صاحب فہم و بصیرت کے مالک بھی تھے  مگر کبھی امام حسین ؑ کے سامنے کبھی نہ زبان کھولی اور نہ کبھی اپنے فضل و کمالات پر نازاں ہوئے ۔

تصویر ہے یہ فاتحِ بدر و حنین کی

شمشیر ہے خدا کی، سپر ہے حسینؑ کی

«سماہ امیرالمومنین علیه السلام بالعباس لعلمه بشجاعته و سطوته و عبوسته فی قتال الاعداء و فی مقا بله الخصما» حضرت علی علیہ السلام نے  مولاعباسؑ کا نام عباس اس لیے رکھا کیونکہ آپ میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے میں حضرت عباس کی شجاعت،قدرت و صلابت کے بارے میں علم و آگاہی رکھتے تھے۔ 

آپؑ کے زیارتنامہ میں حضرت  امام صادق علیہ السلام سے منقول یہ جملات اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ آپؑ ولایت مداری ،دین کے ساتھ وفا داری،قوم و ملت کے ساتھ وفادری،ملک و وطن سے وفادری،اہل و عیال ،بھائی اوروقت کے امامؑ سے وفاداری میں کس قدر آگے تھے۔

السلام علیک ایها العبد الصالح المطیع لله و لرسوله و لامیرالمومنین و الحسن و الحسین۔۔۔یعنی ،تجھ پر سلام ہو اے اﷲ کے صالح بندے،اے اللہ  اور اس کے رسولؑ کے مطیع و فرماں بردار اور امیرالمومنین،امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے حقیقی پیرو کار۔

یاد رہے !‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ جب تک ہم اپنے وقت کے امام ؑ کی محبت، اطاعت، اتباع اور تعظیم کا صرف قولاً دعویٰ اور عملاً ان کی تعلیمات سے دور اور بے بہرہ  رہیں گے ہمیں ان کی معرفت نہیں حاصل ہونے ولی ہے۔

اگر ان سے کچھ بھی عقیدت ہے تم کو ،تو اپنا وطیرہ بدلناپڑے گا

نفاقِ زبان و عمل  سے نکل کر،صداقت کے سانچے میں ڈھلنا پڑے گا

نوجوانو!اپنے دین و ایمان اور یقین کی معرفت ابوالفضل العباس ؑ سے آبیاری کرواور اگر سن سکو توسنو!تم سے روحِ مولاعباس ؑخراجِ اطاعت کی طالب ہےکہ تم بھی  خدا،رسولؐ اور اپنے وقت کے امامؑ کی اطاعت واتباع  اور عہدِوفاکی صلابت میں فولاد و آہن ، کرم کی لطافت میں رحمت مکمل  بن کر جینا سیکھو اور جو تم میں قول و عمل کی دورنگی ہے اس سے باز رہو ۔

یہ ذوقِ اطاعت سے خالی عقیدت ،عقیدت نہیں صرف بازی گری ہے

جو ایثار و اقدام سے جی چرائے ،محبت نہیں صرف بازی گری ہے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .