حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قرآن کی توہین کرنے سے مرتد ہوئے لکھنو کا وسیم نامی شخص ک بارے میں آغا سید عبدالحسین بڈگامی"آغا سعحب" کا ٹاون چینل بڈگام کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ؛یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ شیعوں سے منسوب کیا گیا ایک شخص کو جو اسلام دشمن طاقتوں کے منصوبوں پر کام کرتے ہوئے ، اسرائیلی ایجنسیوں اور وہاں اسرائیل میں بیٹھے جو شیعہ مخالف جو یونیوسٹیاں ہیں ،جو شیعہ سنی تفرقے کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں(وہ اسلئے کہ) جو شیعوں کی طرف سے عالم سیاست میں جو داخلہ ہوا ہے اور اہلبیت (علیہم السلام) کی سیاست کا جلوہ نمایاں ہوا ہے اسلئےپوری استعماری طاقتیں ابھی تشیع کو اپنے لئے بہت ہی عظیم خطرہ سمجھتے ہیں اور اہلبیت اطہار(علیہم السلام) کی تعلیمات سے دنیا کو محروم رکھنے کا جو ان کا منصوبہ (رہا ہے)اسی (منصوبے) پر کام کر رہے ہیں اور لکھنو کے اس مرتد شخص نے جو باتیں کی ہیں کہ قرآن میں 26 آیات ایسی ہیں کہ جو قرآن سے خارج کی جانی چاہئے کیونکہ وہ خشونت کو ترویج دے رہے ہیں جبکہ وہ 26 آیات گلوبل ٹرریزم کے خلاف ہیں ، جو عالمی دہشتگردی ہے اس کے لئے قرآن کا خاص پیغام ہے جس کو قرآن کا مطالعہ ہو وہ بہتر جانتے ہیں۔
آغا سعحب نے مذکورہ شخص کی مذہبی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛المیہ یہ ہے کہ اس (مذکورہ) شخص نے اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنے کی کوشش کی اور یہ کبھی شاید پچھلے سال لکھنو کے شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین رہا ہے ، اور قطعی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس (مذکورہ) شخص کا تشیع سے کوئی تعلق ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ نگار مبلغ اسلام آغا سعحب نے قرآن اور اسلام کے دفاع کرنے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا؛ دیکھئے مباہلہ قرآن میں ایک ایسا اصول ہے کہ جب مذہب پر بات آجائے، اسلام پر بات آ جائے تو اہلبیت اطہار (علیہم السلام) کو لے کر پانچ پنجتن(علیہم السلام)میدان میں آتے ہیں تو اہلبیت (علیہم السلام) مباہلہ کرتے ہیں اسلام کے دفاع کے لئے، ابھی(دور حاضر میں) تشیع یعنی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای ، تشیع یعنی حضرت آیت اللہ العظمی سید سیستانی، (اسی لئے) جو عالم عیسائیت کے سربراہ بھی شیعوں سے ملنے آئے تو کن سے ملے! تو تشیع کی توہین کی جائے یہ کرکے کہ یہ ایک مرتد انسان کو نسبت دی جائے وہ شیعہ فکر یا شیعہ عقیدے کی ترجمانی کرتا ہے یہ (امر)قطعی (مردود ہے)،اسکی کوئی اوقات ہی نہیں ہے( کہ وہ کسی صحیح بات کی ترجمانی کر سکے)۔
آغا سید عبدالحسین بڈگامی نے مذکورہ لکھنوی مرتد شخص کے گھرانے اور رشتہ داروں سلام پیش کرتے ہوئے کہا؛ ہم ان کے گھرانے کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جنہوں سے اسے عزل کرکے یہ ثابت کر دیا کہ ایسا شخص تو شیعہ گھر میں رہنے کے قابل بھ نہیں ہے بلکہ وہ انہی اسرائیلی آلہ کاروں کے پاس رہے جن کے (خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے) شیعہ سنی تفرقہ پیدا کرنے کے لئے یہ کھیل کھیلا ہے۔
آغا سعحب نے قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کو قرآن کی توہین نہیں بلکہ ہندوستانی عدلیہ کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ؛اس بڑ کر میرا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی کوئی توہین کر ہی نہیں سکتا ہے ، جو کوئی قرآن کی توہین کرنے کی کوشش کرنا چائے وہ در واقع اپنی توہین کرتا ہے اور اپنے دین و آخرت کو تباہ کرتا ہے ، یہ توہین (لکھنو کے وسیم نامی مرتد کا قرآن کے خلاف ہندوستانی عدالت عظمی میں درخواست دینا)ہے، یہ توہین ہے انڈین انٹلیکٹ (ہندوستانی شعور)کا، یہ توہین ہے انڈین جوڈشری (ہندوستانی عدلیہ) کی ، یہ توہین ہے انڈین انٹلجنسیا (ہندوستانی روشن فکری) کی ، کہ یہ کیا سوچ کے (اس درخواست کو معقول )سمجھے ہیں (اور اسے قبول کیا گیا اور اسکی تشہیر کی اجازت دی گئ) ، کیا وہ یہ قرآن کو ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ کوئی (انسانی) کتاب ہے جس میں کسی قسم کی امینڈمنٹ(ترمیم) کی جا سکتی ہے، امیندمنٹ کی ضرورت ہے(اسطرح) اتنا بڑا مذاق کیا گیا ہے ہندوستان کی عدلیہ کا ،اور ہندوستانی عدلیہ کو اپنے اسی (معتبر) معیار سے ریکٹ کرنا چاہئے۔
آغا سید عبدالحسین بڈگامی نے لکھنوی مرتد شخص کی مذمت کرنے کو فرعی سمجھتے ہوئے مذمت کا اصلی نشانہ ہندوستانی عدلیہ بننے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ؛ اگر اورہم مذمت کریں اس عدلیہ کی اگر وہ اس کو صحیح طریقے سے، عادلانہ طریقے سے اور قانونی معیار سے اس (مذکورہ) مرتد شخص کو ایسی عبرتناک سز نا دے جس سے ثابت ہو جائے کہ جس نے لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کے لئے اور ہندوستان جو ابھی ایسے مرحلے پر کسی خاص وجہ سے لا کھڑا کیا گیا ہے جس میں صرف نفرت اور تفرقے کو بڑھاوا دیا جاتا ہے جس سے ہندوستان کی عدلیہ کو سمجھنا چاہئے کہ وہ اتنی ہی ذمہ داری سے جواب دے کہ قرآن کے خلاف پٹشن داخل کرنا در واقع ایک فساد قائم کرنا ہے کیا ہندوستانی عدلیہ فساد کو تقویت دینے کیلئے قائم ہے یہ ثابت کر دکھانا ہوگا ۔لکھنو کا مرتد، اس کا حشر کیا ہوگا وہ اس کے گھر والوں نے کہا ہے اسکے معاشرے نے کہا ہےمگر جو ہمارا سوال ہے وہ ہندوستانی عدلیہ کے لئے ہے کہ کیا ہندوستان کا عدلیہ اس کا جواب دینے کی وہ ثقت رکھتا ہے کہ جس سے پوری دنیا ایسے فیصلے سے متاثر ہو کے جو پہچان ہے اس عدلیہ کی وہ محفوظ رہ سکے ، یہی ہمارا ماننا ہے اور ہم یہی توقع رکھتے ہیں ۔