حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر جامعہ امامیہ میں آن لائن جلسہ سیرت منعقد ہوا۔ جلسہ کا آغاز مولوی سید میثم رضا موسوی متعلم جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے کیا بعدہ مولوی نجیب حیدر متعلم جامعہ امامیہ نے دعائے سوم شعبان مع ترجمہ پیش کیا۔
مولوی محمد رضا متعلم جامعہ امامیہ، مولوی محمد صادق متعلم جامعہ امامیہ اور مولوی سید صفی حیدر رضوی متعلم جامعہ امامیہ نے بارگاہ سید الشہداء میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
مولوی سید ظفر عباس متعلم جامعہ امامیہ اور مولوی احمد رضا متعلم جامعہ امامیہ نے تقریر کی۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی استاد جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ سماج میں پھیلی برائیوں کا واحد علاج قرآن کریم اور سنت رسولؐ پر عمل ہے، امام حسین ؑ اپنے اصحاب کے ہمراہ کہیں تشریف لے جا رہے تھےتو راستہ میں مکتب سے آواز سنائی دی کہ استاد بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے ہیں تو امام ؑ مکتب تشریف لے گئے معلم قرآن کو عزت و انعام سے نوازا ، مدینہ سے نکلتے وقت سے شہادت تک قدم قدم پرامام حسین علیہ السلام نے قرآنی آیات کی تلاوت فرمائی بلکہ بعد شہادت نوک نیزہ سے بھی قرآن کی تلاوت کر کے بتا دیا کہ سر و تن میں جدائی ممکن ہے لیکن قرآن سے جدائی ممکن نہیں۔ اسی طرح امام حسین ؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام کی سنت کو زندہ کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح جاہلیت کی تمام رسموں کو ختم کیا ، رنگ و نسل کے تعصب کو مٹا کر قرآنی معیار فضیلت ’’تقویٰ الہی‘‘ کو قائم کیا۔
مولانا سید ممتاز جعفر نقوی صاحب مربی اعلیٰ جامعہ امامیہ نے بیان کیا کہ امام حسین علیہ السلام خلیفۃ اللہ تھے ، آپ کی حیات طیبہ میں الہی صفات کے جلوے نمایاں تھے، انسان چاہے نیک ہو یا بد پھر بھی اللہ کی رحمت اس کے شامل حال رہتی ہے اسی طرح امام حسینؑ نے لشکر حر کو پانی پلایا کہ تمہارے عمل سے میرا عمل بدلنے والا نہیں ہے۔ وہ سریع الرضا ہے ، امام حسین ؑ نے حرؑ کو معاف کر کے الہی صفت کا نمونہ پیش کیا کہ اگر حقیقی اللہ والے ہو تو الہی صفات تمہاری زندگی میں اترجائیں، قدم قدم پر مرضی پروردگار پیش نظر رہے۔