حوزہ نیوز ایجنسی | تین رجب المرجب آسمان امامت و ولایت کے دسویں آفتاب عالم تاب حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کی تاریخ ہے۔
آپ کا نام گرامی علی اور لقب، ھادی، نقی، نجیب، مرتضی، ناصح، عالم، امین، مؤتمن، منتجب، اور طیب ہیں، البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ہیں، امام ہادی کی کنیت " ابو الحسن " ہے اور یہ کنیت چھار اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب ،امام موسی ابن جعفر ،امام رضا علیہم السلام کی بھی تھی۔
امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں بنام " صریا " میں ہوئی ہے جسے امام موسی کاظم علیہ السلام نے آباد کیا اور کئی برسوں تک آپ کی اولاد کا وطن رہا ہے۔ حضرت امام علی النقی علیہ السلام جو کہ ھادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب دوسو چون ہجری قمری میں سامرا میں شھید کۓ گۓ، حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت، عباسی خلفاء معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین، اور معتز کی حکومتوں کے دور میں تھا۔ متوکل عباسی اھل بیت سے سب سے زیادہ دشمنی رکھتا تھا اور اس نے خاندان رسالت کو آزار و اذیت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی، یہاں تک کہ اماموں کی قبروں کو مسمار کیا، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کرکے وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دے دیا۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے کرامات اورآپ کاعلم باطن
امام علی نقی علیہ السلام تقریبا ۲۹/ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپ نے اس مدت عمرمیں کئی بادشاہوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے یعنی تبلیغ دین اورتحفظ بنائے مذہب میں فائزالمرام رہے آپ چونکہ اپنے آباؤاجدادکی طرح علم باطن اورعلم غیب بھی رکھتے تھے اسی لیے آپ اپنے ماننے والوں کو ہونے والے واقعات سے باخبرفرمادیاکرتے تھے اس سلسلہ میں آپ کی کرامات بے شمارہیں جن میں سے ہم اس مقام پرکتاب کشف الغمہ سے چندکرامات تحریرکرتے ہیں۔
۱۔ محمدبن فرج رجحی کابیان ہے کہ حضرت امام علی نقی نے مجھے تحریرفرمایا کہ تم اپنے تمام امور ومعاملات کو راست اورنظام خانہ کودرست کرلو اور اپنے اسلحوں کوسنبھال لو، میں نے ان کے حکم کے مطابق تمام امور کو درست کرلیا لیکن یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حکم آپ نے کیوں دیاہے لیکن چنددنوں کے بعد مصرکی پولیس میرے یہاں آئی اورمجھے گرفتارکرکے لے گئی اورمیرے پاس جوکچھ تھا سب لے لیا اورمجھے قیدخانہ میں بندکردیا میں آٹھ سال قیدخانہ میں رہا، ایک دن امام علیہ السلام کاخط پہنچا، جس میں مرقوم تھا کہ اے محمدبن فرج تم اس علاقے کی طرف نہ جانا جومغرب کی طرف واقع ہے میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی میں سوچتارہا کہ میں توقیدخانہ میں ہوں میرا تو ادھر جانا ممکن ہی نہیں پھرامام نے کیوں یہ تحریرفرمایا آپ کے خط آنے کوابھی دوچاریوم ہی گذرے تھے کہ میری رہائی کاحکم آگیا اورمیں ان کے حسب الحکم مقام ممنوع کی طرف نہیں گیا قیدخانہ سے رہائی کے بعدمیں نے امام علیہ السلام کولکھا کہ حضرت میں قیدسے چھوٹ کرگھرآگیاہوں، اب آپ خداسے دعاء فرمائیں کہ میرامال مغصوبہ واپس کرادے آپ نے اس کے جواب میں تحریرفرمایاکہ عنقریب تمہاراسارامال تمہیں واپس مل جائے گا چنانچہ ایساہی ہوا۔
۲۔ ایک دن امام علی نقی علیہ السلام اورعلی بن حصیب نامی شخص دونوں ساتھ کہيں جارہے تھے علی بن حصیب آپ سے چندگام آگے بڑھ کربولے آپ بھی قدم بڑھا کر جلد آجائیے حضرت نے فرمایاکہ اے ابن حصیب ”تمہیں پہلے جاناہے“ تم جاؤ اس واقعہ کے چاردن بعدابن حصیب فوت ہوگئے۔
۳۔ ایک شخص محمدبن فضل بغدادی کابیان ہے کہ میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کولکھا کہ میرے پاس ایک دکان ہے میں اسے بیچنا چاہتاہوں آپ نے اس کاکوئی جواب نہ دیا جواب نہ ملنے پرمجھے افسوس ہوا لیکن جب میں بغداد واپس پہنچا تووہ آگ میں جل کر راکھ ہوچکی تھی۔
۴۔ ایک شخص ابوایوب نامی نے امام علیہ السلام کولکھاکہ میری زوجہ حاملہ ہے، آپ دعا فرمائیے کہ لڑکاپیداہو،آپ نے فرمایاانشاء اللہ بیٹا ہی پیداہوگا اورجب پیداہوتو اس کانام محمدرکھنا چنانچہ بیٹا اہی پیداہوا، اوراس کانام محمدرکھاگیا۔
۵۔ یحی بن زکریاکابیان ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کولکھاکہ میری بیوی حاملہ ہے آپ دعافرمائیں کہ لڑکاپیداہوآپ نے جواب میں تحریرفرمایا، کہ بعض لڑکیاں لڑکوں سے بہترہوتی ہیں، چنانچہ لڑکی پیداہوئی۔
آلام ومصائب
متوکل کا تخت خلافت پر بیٹھنا تھا کہ امام علی نقی علیہ السّلام پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ یہ واثق کابھائی او معتصم کابیٹا تھا , اور الِ رسول کی دشمنی میں اپنے تمام اباواجداد سے آگے تھا . سولہ سال کی عمر میں جب سے امام علی نقی علیہ السّلام منصب امامت پر فائز ہوئے تھے آپ کی شہرت تمام مملکت میں پھیل چکی تھی۔ ابھی متوکل کی سلطنت کو چار برس ہوئے تھے کہ مدینے کے والی عبدالله بن حاکم نے امام علیہ السّلام سے مخالفت کا اغاز کیا ۔ پہلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی پہنچائيں پھر متوکل کو آپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق سلاطین کے پاس آپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی جاتی تھیں اور سرانجام عباسی خلیفہ کے حکم پر امام کومدینے سے سامرا منتقل کیا گيا اور انہیں ایک طرح سے پوری عمر قید کردیا گيا لیکن اس کے بعد بھی امامت کی روشنی پھلیتی رہی اور جب عباسی خلیفہ نے اپنی مقبولیت کو کم اور رسوائیوں میں اضافہ ہوتے تو دیکھا تواس نے امام پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے شروع کردئے اور اپنے کارندوں کے ذریعے دئے گئے زہر دغا سے امام کو شہید کردیا۔