۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 377037
5 فروری 2022 - 14:03
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ دنیا کی محبت جب انسان پر غالب آ جاتی ہے تو معصوم امام کی مخالفت سے بھی پرہیز نہیں کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آل محمد علیہم السلام کے دشمنوں نے دنیا کی حوس میں انکی مخالفت کی۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیعباسی حاکم متوکل کی جانب سے بریحہ عباسی نامی شخص مدینہ اور مکہ میں نماز جمعہ کی امامت پر مامور تھا اور وہ متوکل کا چاپلوس اور نمک خوار تھا۔
حاکم کی چاپلوسی کی خاطر اس نے متوکل کو امام علی نقی علیہ السلام کے خلاف ایک خط ارسال کیا جسمیں لکھا کہ "اگر مکہ اور مدینہ کی حکومت چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے نکال دیں کیونکہ انہوں نے لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دی ہے اور کچھ لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں۔ بریحہ نے اسی مفہوم کے کئی خطوط متوکل ملعون کو بھیجے۔
متوکل چونکہ اہلبیت علیہم السلام کا شدید ترین دشمن تھا۔ امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد کا وجود اسے ہر لمحہ کھٹکتا تھا۔ یہی متوکل ملعون تھا جس نے مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر نہ صرف پابندی لگائی بلکہ قبر مبارک پر حملہ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر بے نشاں ہو جائے اسی لئے اس نے کبھی کھیتی کرانی چاہی تو کبھی نہر جاری کرائی لیکن
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
بریحہ کے خطوط پڑھ کر متوکل کو بہت غصہ آیا، اس نے یحییٰ بن حارثہ کو طلب کیا اور حکم دیا کہ امام علی نقی علیہ السلام کو جلد از جلد سامرہ لے آئے۔
یحییٰ کا بیان ہے کہ میں 243 ہجری کو مدینہ پہنچا اور جب امام علی نقی علیہ السلام کو لے کر مدینہ سے نکلا تو امام عالی مقام کے اہلبیت کے علاوہ مدینہ کے اشراف و عمائدین جس میں بریحہ بھی شامل تھا، رخصت کرنے کے لئے مدینہ کے باہر تک آئے۔
جب ہم تھوڑی دور چلے تو بریحہ امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور گستاخی کرتے ہوئے بولا: میں جانتا ہوں کہ آپ جان گئے ہیں کہ آپ کی اس جلا وطنی کا سبب میں ہوں۔ میری ہی جھوٹی شکایتوں کے سبب متوکل نے آپ کو سامرہ بلایا ہے۔ لیکن اگر آپ نے مجھے متوکل کے سامنے جھٹلایا اور اس سے میری شکایت کی تو میں آپ کے تمام باغات اور اموال جلا دوں گا اور آپ کے گھر والوں کو نابود کر دوں گا۔
امام علی نقی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: میں تیری طرح کسی کی نہ توہین کرتا ہوں نہ ہی کسی کی شخصیت مجروح کرتا ہوں۔ میں تو اس خدا سے شکایت کروں گا جس نے مجھے، تجھے اور متوکل کو پیدا کیا ہے۔
(اعیان الشیعه، جلد ۲، صفحه ۳۷)
دوسری روایت میں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے کل رات ہی اس خدا سے شکایت کر دی ہے جس کے انتقام سے نہ تو خود اپنے کو بچا سکتا ہے اور نہ ہی متوکل تجھے بچا سکتا ہے.
یہ سننا تھا کہ بریحہ کانپ گیا اور آپ کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا اور معافی کی بھیک مانگنے لگا۔

مذکورہ روایت میں مندجہ ذیل نکات قابل غور ہیں۔
1۔ دنیا کی محبت جب انسان پر غالب آ جاتی ہے تو معصوم امام کی مخالفت سے بھی پرہیز نہیں کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آل محمد علیہم السلام کے دشمنوں نے دنیا کی حوس میں انکی مخالفت کی، ان کے بے گناہ خون سے اپنے ہاتھ رنگین کئے چاہے وہ سقیفائی ہوں، اموی ہوں یا عباسی ہوں۔ سب اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و فضیلت کے قائل تھے لیکن حکومت کی خاطر اہلبیت علیہم السلام کو نظر انداز کیا، سب نے کہا "الملک عقیم" حکومت بانجھ ہوتی ہے۔ عمر بن سعد بھی جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام حق پر ہیں لیکن شہر ری کی حکومت کی لالچ نے اسے قتل حسین علیہ السلام پر مجبور کیا۔ ہارون رشید بھی جانتا تھا حکومت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا حق ہے، اس نے خود اقرار کیا کہ آپ دلوں کے امام ہیں لیکن الملک عقیم حکومت بانجھ ہوتی ہے دنیا اور حکومت کی لالچ میں امام کو چودہ برس کی قید با مشقت کے بعد شہید کردیا۔
2۔ ذاتی مفاد کی خاطر کسی کی شخصیت مجروح کرنا، تہمت لگانا، جھوٹ بولنا آل محمد علیہم السلام کے دشمنوں کا وطیرہ رہا ہے۔ شامی حاکم نے اسی تہمت اور جھوٹ کے لئے جعلی احادیث کا کارخانہ کھولا اور ضمیر فروشوں نے درہم و دینار کی کھنک میں اہلبیت علیہم السلام کے خلاف حدیثیں گڑھیں، جس کے برے آثار آج بھی قابل مشاہدہ ہیں۔
3۔ برائی کا جواب نیکی سے دینا آل محمد علیہم السلام کی شان ہے۔
4۔ امام علی نقی علیہ السلام سمیت اہلبیت علیہم السلام نے ہمیں یہی تعلیم دی کہ حالات چاہے جیسے ہوں کبھی بھی کسی بھی ظالم و جابر اور ستمگر سے خیر کی امید نہ رکھی جائے بلکہ ہر حال میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہی امیدوار رہیں، صرف اسی کی بارگاہ میں دست سوال دراز کریں اور اپنے تمام مسائل اسی کے حوالے کر دیں کیوں کہ صرف خدا ہی چارہ ساز ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .