۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/ امام زادہ سید محمد حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت سوسن سلام اللہ علیہا کے عظیم المرتبت فرزند اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھای تھے۔ آپ کے ایمان، تقوی، اخلاص اور اطاعت کو دیکھ کر عوام تو عوام خود خواص کو یہ شبھہ ہوتا تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام کے بعد آپ ہی امام ہوں گے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام زادہ سید محمد حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت سوسن سلام اللہ علیہا کے عظیم المرتبت فرزند اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھای تھے۔ آپ کے ایمان، تقوی، اخلاص اور اطاعت کو دیکھ کر عوام تو عوام خود خواص کو یہ شبھہ ہوتا تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام کے بعد آپ ہی امام ہوں گے۔ لیکن آپ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت سے دو برس پہلے ہی ۲۹ ؍ جمادی الثانی ۲۵۲ ؍ ہجری کو اپنے خالق جا ملے۔ مروی ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی اور غسل و کفن انجام پا گیا تو امام علی نقی علیہ السلام نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے فرمایا’’يَا بُنَيَّ أَحْدِثْ لِلَّهِ شُكْراً فَقَدْ أَحْدَثَ فِيكَ أَمْراً (ائے میرے بیٹے! اللہ نے تمہارے لئے نیکی کی تم بھی اس کا شکر ادا کرو۔الغيبہ (للطوسي)، صفحہ۲۰۳ )

امام زادہ سید محمد علیہ السلام جہاں اپنے امام اور والد ماجدامام علی نقی علیہ السلام کے مطیع محض تھے وہیں اپنے بھای امام حسن عسکری علیہ السلام کے ویسےہی وفادار تھے جیسے حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے وفادار تھے۔ آپ کو "سبع الدجیل" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام زادہ حضرت سید محمد علیہ السلام کا سامرہ کے نزدیک شہر بلد میں موجود روضہ مبارک عاشقان آل محمد کی زیارت گاہ ہے۔ جہاں کرامات کا ظہور ہوتا ہے کہ پریشاں حال آپ کی بارگاہ سے مرادیں پاتے ہیں۔ عراق میں کوی آپ کی جھوٹی قسم نہیں کھاتا اور اگر کوی آپ کی قسم کھا لے تو لوگ اس کا یقین کرتے ہیں۔ ثقۃ الاسلام شیخ نوریؒ کو امام زادہ حضرت سید محمد علیہ السلام سے خاص عقیدت تھی ۔ انھوںنے روضہ مقدس کی تعمیر میں نمایاں کوششیں کی اور ضریح مبار ک پر مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی۔ ھذا مَرقَدُ السَّیّدُ الجَلیلِ، أبی جَعفَر، مُحَمَّد بنِ الإِمامِ أبِی الحَسَنِ، عَلی الهادی عَلَیهِ السَّلام، عَظیمِ الشَّأنِ، جَلیلِ القَدرِ، و کانَتِ الشّیعَةُ تَزعُمُ أَنَّهُ الإمامُ بَعدَ أبیهِ عَلَیهِ السلام، فَلما تُوفی، نَصَّ أبُوهُ عَلى أخیهِ أبی مُحَمَّدٍ الّزکی عَلَیهِ السَّلامُ، و قالَ لَهُ: أَحْدِثْ ِللِه شُکْرَاً، فَقَدْ أَحْدَثَ فیکَ أمرًا. خَلَّفَهُ أبُوهُ فی المَدینَةِ طِفلاً، وَ قَدِمَ عَلَیهِ فی سامِراء مُشْتَدْاً، وَ نَهَضَ إلى الُّرجُوع إلَى الحجازِ، وَ لَمّا بَلَغَ بَلَدَ عَلى تسعَةِ فَراسِخَ، مَرِضَ و تُوُفّی، وَ مَشهَدُهُ هُناکَ وَ لَمَّا تُوُفیَ، شَقَّ أبُو مُحَمَّدٍ عَلَیهِ ثَوبَهُ، وَ قالَ فی جَوابِ مَن عابَهُ عَلَیهِ: قَد شَقَّ موسى عَلى أخیهِ هارون، و کانَت وَفاتُهُ فی حُدُودِ اثْنَینِ و َخَمسینَ بَعدَ المِائَتَینِ۔ یہ  امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام کےفرزندحضرت ابو جعفرسید محمدعلیہ السلام کا مزارہے۔جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے والد نے انکے بھائی حضرت ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کو واضح کیا اور ان سے فرمایا: خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نےتمہارے سلسلہ میں تجدید حکم کیا ، ان کے والد نے انہیں بچپن میں ہی مدینہ منورہ میںچھوڑ دیا۔جب وہ جوان ہوئے تو سامرا میں اپنے والد سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئےاور جب وہ سامرا سے مدینہ واپس جا رہے تھے تو ابھی وہ سامرا سے نو میل دور مقام بلادپر ہی پہنچے تھےکہ بیمار ہو گئے اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہو گیا اوروہیں (بلادمیں) دفن ہوئے۔جب انکی وفات ہوئی تو حضرت ابو محمدامام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنا گریبان چاک کر دیا ، لوگوں نے جب اعتراض کیا توآپؑ نے فرمایا: حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کے غم میں اپنا گریبان چاک کیا تھا،سید محمد کی وفات ۲۵۲ ہجری میں ہوئی ۔

نجم الدین ابو الحسن علی ابن محمد ابن علی ابن محمد آل علوی نےاپنی کتاب (المجدی فی انساب الطالبین ، صفحہ۱۳۱) میں جناب سید محمدؑ کے ایک ہم عصر کا بیان نقل کیا : میںجناب ابوجعفرسید محمد ابن امام علی نقی علیہ السلام کی نوجوانی میں دوست تھا، میں نے ان سے زیادہ معزز ، محترم اور عقلمند کسی کو نہیں پایا  اگرچہ حضرت ابوالحسنؑ (امام علی نقیؑ) نے انہیں بچپن میںمدینہ منورہ میںہی رکھا  (اوروہ خود سامرہ میں تھے) لیکن ان کی مکمل نگرانی کی اور وہ (سید محمدؑ)ہمیشہ اپنے بھائی ابو محمد (امام حسن عسکریؑ )کے ساتھ رہے اور کبھی ان سے جدا نہیں ہوئے۔ 

سید محسن الامین اپنی کتاب (اعیان الشیعہ) میں لکھتے ہیں:سید ابو جعفر محمد ابن امام علی نقی ہادی علیہ السلام، جنکی ۲۵۲   ؁ ھ میں وفات ہوئی وہ ایک جلیل القدر سید اور عظیم انسان تھے۔ شیعوں کا خیال تھا کہ وہ اپنے والد کے بعد امام ہوں گے۔ آپ کے والد نے آپ کے بھائی ابی محمدؑ (امام حسن عسکریؑ) سے وصیت کی۔ جب امام علی نقیؑکو عراق لے جایا گیا تو وہ اس وقت مدینہ میں بہت کم سن تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اپنے والد (امام علی نقیؑ) سے ملاقات کے لئے سامرہ تشریف لے گئےاور جب سامرہ سے مدینہ واپس جا رہے تھے تو سامرہ سے نو میل کے فاصلہ پر بلد نامی قریہ میں بیمار ہوگئےاور اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور وہیں دفن ہیں ۔ آپ کی مزار مقدس شیعوں کی مشہور زیارت گاہ ہے۔ 

شیخ عباس قمیؒ منتہی الآمال میں لکھتے ہیں۔ حضرت ابوجعفر سید محمد ؑ جنکی جلالت و عظمت معروف ہے۔ انکی فضیلت میں یہی کافی کہ ان کی صلاحیتوں کے پیش نظر شیعوں کوگمان ہوتا تھا کہ وہ اپنے والد کے بعد امام ہوں گے لیکن وہ اپنے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی زندگی میںہی وفات پاگئے۔

امام زادہ سید محمد ؑ کی عظمت کے فقط شیعہ قائل نہیں ہیں بلکہ اہل سنت کو بھی آپ کی فضیلتوں کااقرار ہے اور وہ بھی اپنی مرادیں پانے کے لئے آپ کے مزار مقدس پر حاضر ہوتے ہیں۔ اور جب داعش عراق میں ہر جانب تباہی مچا رہے تھے اور ہر روضہ کو منہدم کرنا چاہتے تھے تو انھوں نے آپؑ کے روضہ پر بھی حملہ کیا لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب داعش کے تمام حملے آپ کے روضہ کے قریب ناکام ہوتے نظر آئے اور آپ کے روضہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .