۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 377382
14 فروری 2022 - 17:58
۱۳ رجب

حوزہ/ اللہ تبارک و تعالی نے جب اپنے کنز مخفی وجود کاتعارف کرانا مقصود سمجھا تو نور کو خلق کیا اس نور کو پانچ حصوں میں منقسم کیا ۔ جسکا دوسرا حصہ علیؑ ہیں۔ آپ ؑ کی تسبیح سن کر ملائکہ نے تسبیح کی، آپؑ کی تقدیس سن کر ملائکہ نے تقدیس کی، آپ کے سلیقہ عبادت کو دیکھ کر فرشتوں نے اللہ کی عبادت کی۔

تحریر:مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی

مولا علی ؑ پر گفتگو اور انکا ذکر کل کی بات نہیں بلکہ آج کی بات ہے ۔ یہ گفتگو ہر زمانے کا تقاضہ ہے۔ ہر لمحہ ذکر علیؑ کا متقاضی ہے۔ ذکر علی کسی زمان و مکان کی قید میں محدود نہیں کیوں کہ جب زمان و مکان نہ تھے تب بھی علیؑ تھے۔ کیوں ؟ کیوں کہ جب اللہ نے مکان کو خلق کیا تو اس پر لکھا ’’لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اَللَّهِ عَلِيٌّ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ وَصِيُّهُ بِهِ أَيَّدْتُهُ وَ نَصَرْتُهُ‘‘ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور علیؑ امیرالمومنین ہیں اور انہیں کے ذریعہ نبی ؐ کی نصرت و مدد کی۔

جب اللہ نے عرش کو خلق کیا تو اس کے پردہ پر مذکورہ عبارت تحریر کی، جب آسمانوں کو خلق کیا تو اس پر بھی یہی لکھا، جنت پر بھی یہی تحریر لکھی، فرشتوں کو خلق کیا تو انہیں آسمان پر سکونت دی ، ہوا کو خلق کیا تو اس پر بھی یہی لکھا اور جب جنات کو خلق کیا تو انہیں ہوا میں سکونت دی، اللہ نے جب زمین کو خلق کیا تو اس کے اطراف میں بھی یہی کلمات تحریر کئے ۔ (بحارالانوار ،جلد ۵۴ تا ۶۳) یعنی قدرت یہی چاہتی ہے چاہے آسمان پر رہنے والے فرشتے ہوں، یا دوش ہوا پر اڑنے والے جنات ہوں یا زمین پر رہنے والے انسان ہوں جان لیں کہ جب تک یہ آسمان، ہوا اور زمین ہے تب تک ذکر علیؑ ہے اور یہاں کے باشندوں پرلازم ہے ذکر علیؑ کرتے رہیں، ہر لمحہ علیؑ کو یاد کرتے رہیں۔ کیوں کہ اللہ نے تمام مخلوقات کو انہیں کے صدقے میں خلق کیا ہے۔

جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’علیؑ کا حق تمام خلق پر وہی ہے جو ایک باپ کا حق اولاد پر ہوتا ہے۔ یعنی اطاعت اور فرمانبرداری۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اشارہ کیا تو سورج پلٹ آیا، چاند دو ٹکڑے ہوا، ستارہ ڈیوڑھی پر اتر آیا۔ فرشتے خدمت کے لئے آگئے۔ سنگ موم بن گیا اور علم اس پر نصب ہوگیا۔ جب خیبر کے در کو اٹھایا تو ہوا نے اپنے دوش پر قدم اٹھانے کو اطاعت و شرف سمجھا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جب اپنے کنز مخفی وجود کاتعارف کرانا مقصود سمجھا تو نور کو خلق کیا اس نور کو پانچ حصوں میں منقسم کیا ۔ جسکا دوسرا حصہ علیؑ ہیں۔ آپ ؑ کی تسبیح سن کر ملائکہ نے تسبیح کی، آپؑ کی تقدیس سن کر ملائکہ نے تقدیس کی، آپ کے سلیقہ عبادت کو دیکھ کر فرشتوں نے اللہ کی عبادت کی۔

عام انسانوں میں اور علیؑ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمارے جیسا عام انسان جبرئیل امینؑ کے لائے پیغام الہی یعنی قرآن کریم پر عمل کرتا ہے۔ لیکن علیؑ اس ذات کا نام ہے جس سے ملائکہ نے سلیقہ بندگی سیکھا۔ عام انسان خاکی ہے خاک میں مل جاتا ہے لیکن علی علیہ السلام نورانی ہیں، آپ کا نور خالق کے نور عظمت سے ہے لہذا خلقت عالم و آدم ؑسے پہلے سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ بلکہ جس طرح نبیؐ اس وقت بھی نبی تھے جب جناب آدمؐ آب و گل کے درمیان تھے اسی طرح مولا علیؑ اس وقت بھی ولی تھے جب جناب آدم ؑآب و گل کے درمیان تھے۔ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں جن انوار طیبہ کو جا دی انمیں سے ایک نور مولا علی علیہ السلام کا بھی تھا اور انہیں انوار کے سبب حضرت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ قرار پائے، انہیں انوار کی سبب جناب نوح علیہ السلام کی کشتی کو نجات ملی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نار نمرودی گلزار ہوئی۔ یا یوں کہا جائے کہ آدم ؑکو علم کا خزینہ، نوح ؑکو نجات کا سفینہ، ابراہیم ؑکو خلت کا نگینہ، موسیٰ ؑکو تابوت سکینہ، عیسیٰ ؑکو زہد کا قرینہ، لقمان کو حکمت، سلیمان ؑکو حکومت انہیں کے صدقہ میں ملی۔

اللہ نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ابو طالب علیہ السلام تک اور مادر بشریت حضرت حوّا سلام اللہ علیہا سے لے کر مہمان کعبہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا تک اس نور کو ہمیشہ بلند ترین صلبوں اور پاک و پاکیزہ رحموں میں جا دی کہ وہ حضرات نہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر تسلیم خم ہوئے اور نہ ہی زنا، شراب، چوری، قتل جیسے گناہوں کے مرتکب ہوئے۔

آخر وہ دن بھی آیا جب یہ نور پیکر بشر میں ظاہر ہوا تو قدرت نے اس کا نرالا اہتمام کیا کہ نہ ان سے پہلے کسی کو یہ فضیلت ملی اورنہ انکے بعد کسی کو یہ فضیلت ملی اور نہ ہی ملے گی۔ 13 رجب سن 30 عام الفیل کو کعبہ میں ولادت ہوئی۔

آنکھ کھولی تو دنیا میں سب سے پہلے محبوب خدا کی زیارت کی۔ جو قرآن کریم شاگرد جبرئیل امینؑ بعد میں لائے استاد نے اسے پہلے ہی دن اپنے استاد ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنا دیا۔

محبوب کبریاء کے زیر سایہ پروان چڑھے اور انہوں نے اعلان اسلام کیا تو سب سے پہلے اعلان ایمان اور نصرت کا وعدہ آپ نے ہی کیا۔ دوشنبہ کو حضورؐ نے تنہا نماز پڑھی۔ جب دوسرے دن نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو داہنے علیؑ تھے اور پشت پر خدیجہؑ تھیں۔ قیامت تک کے لئے مسئلہ حل ہو گیا کے پہلے مومن امیرالمومنین علیؑ ہیں اور پہلی مومنہ ام المومنین خدیجہؑ ہیں۔

سفر ہو یا حضر، خلوت ہو یا جلوت تا حیات رسول ؐکے ساتھ سایہ کی طرح رہے شائد قدرت کو بھی یہی منظور تھا کہ ہمارا محبوبؐ سب سے افضل ہے تو اس کا سایہ بھی عام سایہ نہ ہو لہذا اس کے لئے علیؑ کا انتخاب کیا اور قیامت تک کے لئے بتا دیا کہ اگر چاہتے ہو کہ دنیا و آخرت میں میرے محبوب کے زیر سایہ رہو تو علیؑ سے وابستہ ہو جاو۔ غدیر میں اس کا اعلان بھی کرایا اور حکم دیا کہ جس طرح توحید و رسالت کا کلمہ پڑھے بغیر سعادت ممکن نہیں اسی طرح اقرار ولایت کے بغیر بھی دو جہاں میں کامیابی ممکن نہیں ۔

لیکن افسوس صد افسوس رحلت پیغمبر ؑکے بعد وادی ظلمت کے راہیوں نے نور کے راستہ کو روکا، باطل حق سے مانع ہو گیا اور جن پر اطاعت واجب تھی وہ بیعت کے طلب گار ہوگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ظہور تک بشریت نظام عدل سے محروم ہو گئی۔

تصور کریںاگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مولا علی علیہ السلام حاکم ہو جاتے تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا جیسا کہ بضعۃ المصطفیٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: اگر حق کو اہل حق کے حوالے کر دیتے تو قیامت تک دو لوگوں میں بھی اختلاف نہ ہوتا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصبین صرف مولا علیؑ کے مجرم نہیں بلکہ قیامت تک عالم بشریت کے مجرم ہیں۔

اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ سعادت دارین ہمارا مقدر بنے تو ہماری خلوت، جلوت، ذاتی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی زندگی میں علی علیہ السلام ہوں ہماری زندگی کا کوئی لمحہ بغیر علی علیہ السلام کے نہ ہو، کیوں جب علی علیہ السلام ہوں گے ہم گناہ سے دور ہوں گے، گناہگار ہم سےدور ہوں گے اور اللہ کی بندگی ہمارا نصیب ہوگی۔

جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ذکر علی عبادہ، علیؑ کا ذکر عبادت ہے یعنی علی ؑکی یاد عبادت ہے، جس طرح ذکر خدا کا تقاضہ ہے کہ زبان کےساتھ ساتھ اعمال و کردار سے بھی ظاہر ہو اسی طرح ذکر علی علیہ السلام بھی زبان کے ساتھ اعمال و کردار سے ظاہر ہو۔ کیوں کہ علی علیہ السلام کا ذکر وہ واحد ذکر ہے جو ذکر خدا کی طرح ہر زمانے اور ہر انسان کی ضرورت ہے۔

قرآن ہو یا سنت، اخلاق ہو یا سیرت، عقائد ہوں یا احکام بغیر علیؑ کسی تک رسائی ممکن نہیں۔ جنہوں نے علیؑ کو چھوڑ کر قرآن پڑھا وہ تلاوت سے آگے نہ بڑھ سکے، جنہوں نے بغیر علیؑ سنت کو سمجھنا چاہا وہ زلف مبارک اور جبہ و دستار سے زیادہ نہ سمجھ سکے۔ جنہوں نے بغیر علیؑ اخلاق سمجھا وہ اخلاق تو دور گناہ کے مرتکب ہو گئے، جنہوں نے بغیر علیؑ سیرت کو سمجھا وہ صرف صورت کے قصیدے پڑھتے نظر آئے ، جنہوں نے بغیر علیؑ عقائد کو مانا وہ توحید و رسالت بھی نہ سمجھ سکے اور شک میں مبتلا ہو گئے۔ جنہوں نے بغیر علیؑ احکام پر عمل کرنا چاہا وہ حلال محمدیؐ کو حرام اور حرام محمدی ؐکو حلال کر بیٹھے۔

خدایا ! ذکر علیؑ کی توفیق عطا فرما۔ آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .