حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں گروه مطالعاتی آثار شہید مطہری (ره) كی جانب سے مركز تحقیقات اسلامی بعثت میں 13 رجب، ولادت با سعادت امیر المومنین حضرت علی ابی طالب علیہ السلام كی مناسبت سے "قرآن کریم، کتاب الہی نا شناختہ و مہجور اور امیرالمؤمنین بھی اسوہ نا شناختہ و مہجور" کے عنوان سے جشن مولود کعبہ منعقد ہوا۔
اس جشن میں حجة الاسلام و المسلمین مصور عباس نے اپنی کا گفتگو آغاز میلاد مسعود کی مبارک باد سے کرتے ہوئے کہا: سب سے پہلے حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر ان کے فرزند گرامی حضرت حجۃ ابن الحسن العسکری عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اور ان کے نائب برحق رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی و مراجع عظام تقلید و علمائے کرام و طلاب عزیز و پیروان امامت و ولایت کی خدمت میں ہدیہ تبریک عرض کرتا ہوں۔
انہوں نے فضائل امیر المؤمنین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد مقامات پر امیر المؤمنین علیہ السلام کا تعارف کروایا اور متعدد جگہوں پر امام علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات بیان فرمائے اور اپنی امت کو اپنے بعد اپنی امت کا ولی و سرپرست و وزیر و خلیفہ اور امت کے لئے عظیم اسوہ کے طور پر متعارف کرایا۔
خطیب مجلس نے حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بیانات سے استفادہ کرتے ہوئے فضائل امیر المؤمنین علیہ السلام کے بیان میں کہا: حضرت امام راحل (رہ) کے بقول امیر المؤمنین علیہ السلام تمام اسمائے الہی کے مظہر،باب علم الہی و نبوی، عبد اللہ اعظم، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے بعد معلم بشریت ، مظہر ظلم ستیزی ، جامع الاضداد صفات کے مالک ہیں یعنی وہ ہستی جن کی روزانہ کی خوراک نان جو و نمک تھی اور زہد و تقوی کا نمونہ اورمستضعفین کے سامنے مہربان اور رحمدلی کے باوجود میدان جنگ میں مستکبرین کے سامنے ڈٹ جانے والے تھے۔
انہوں نے کہا: سورہ فرقان کی آیت نمبر 30 کے مطابق جیسے قرآن مہجور واقع ہوا اسی طرح نہج البلاغہ میں خود امیرالمؤمنین علیہ السلام کے نورانی خطبات کے مطابق حضرت کی ذات گرامی بھی مہجور واقع ہوئی ہے پس قرآن صامت و قرآن ناطق ہر دو مہجور تھے اور ابھی تک بھی مہجور ہیں۔ حدیث نبوی (ص) ہے کہ "القرآن مع علی و علی مع القرآن"۔ نیز حدیث ثقلین کے مضمون کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید و علی علیہ السلام تمام مراتب میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں حتی کہ مظلومیت و مہجوریت میں بھی باہم ہیں۔
حجة الاسلام مصور عباس نےکہا: قرآن صامت و قرآن ناطق کے مہجور ہونے کی اہم ترین دلیل یہ ہے کہ ابھی تک قرآن بھی ناشناختہ ہے اور اسلام کے یہ عظیم مجاہد و فداکار و مردِ میدان بھی ناشناختہ ہیں حتی حضرت امیر علیہ السلام اپنے ساتھیوں اور محبین کے درمیان بھی تنہا تھے اور ہمیشہ اپنے ہمدرد اور حقیقی جانثار و فداکار ساتھیوں کی تلاش میں رہتے۔ جب دیکھتے کہ کوئی ہمدرد نہیں ہے تو نخلستان میں جاکر کنویں پر منہ رکھ کر اپنا درد دل بیان کیا کرتے۔پس قرآن مجید اور علی علیہ السلام کی حقیقی شناخت و معرفت، بشریت کے لئے مجہول ہے اور یہ دونوں ناشناختہ ہیں چونکہ جس ہدف کے لئے خداوند تبارک و تعالی نے ان کا اہتمام کیا امت نے نہ ان کی شناخت و معرفت حاصل کی اور نہ ان سے تمسک کیا۔
انہوں نے کہا: گرچہ ان دو کے تذکرے و قصیدے بہت زیادہ پڑھے جاتے ہیں اور ان کو متبرک و مقدس سمجھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے اس کے باوجود ان دو میں اور امت کے درمیان مشرق سے مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ دوری ہے۔ لہذا رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے کر آج تک امت پیغمبر اکرم (ص) کی اکثریت ذلت و رسوائی کا شکار رہی ہے اور آج تک دیانت و سیاست، اقتصاد و معیشت، اسلامی ثقافت و عسکریت جیسے تمام میدانوں میں بھی ظاہری شکست سے دوچار ہے۔
حجة الاسلام و المسلمین آقای مصور عباس نے کہا: انقلاب اسلامی کے بعد امت کے ایک طبقے میں مقاومت و مزاحمت کی جھلک نظر آئی ہے کہ جس سے آج دشمن خائف ہے لیکن اکثریت راہ قرآن و علی سے دور ہے درحالیکہ ہر دو کا مبارک وجود سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کی ندائیں دے رہا ہے۔ لیکن ان کی ندا پہ لبیک کہنے کے بجائے عوام و خواص حتی ولایت و امامت کا دم بھرنے والوں کی کثیر تعداد "بخ بخ" اور "واہ واہ" کے نعرے لگانےپر اکتفاء کرتی نظر آتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: عصر حاضر میں نجات بشریت کا تنہا راستہ قرآن کریم کی تعلیمات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اور علی و آل علی علیہم السلام کی سنت و سیرت سے تمسک کرنا ہے۔ چونکہ اللہ تعالی نے ان کو انسانوں کی ہدایت اور امامت کے لئے خلق فرمایا ہے اور در اصل انسان حقیقی ہے ہی وہ جو ان سے تمسک کرے تاکہ کبھی بھی گمراہ نہ ہو۔ پس آج عصر غیبت میں امت اسلامیہ کا اصلی فریضہ قرآن کی حقیقی معرفت حاصل کرنا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المؤمنین و اولاد علی علیہم السلام جیسے عظیم الہی اسووں کی حقیقی شناخت و تأسی کرنا نیز قرآن صامت کے حقیقی پیروکار اور قرآن ناطق کے حقیقی فرزند رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی قیادت و سرپرستی میں متحد ہوکر اپنے زمانے کے ولی مطلق اور فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم یعنی مہدی موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے عملی طور پر آمادہ ہونا ہے تاکہ جب حضرت ولیعصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف دین کے غلبے کے لئے پرچم الہی بلند کریں تو فقط بخ بخ نہیں بلکہ سب ایک صدا ہو کر "لبیک یا مہدی" کہتے ہوئے ان کے فداکار و جانثار سپاہی بن کر عدالت جہانی کی حکومت قائم کریں؛ ان شاء اللہ۔