۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
غدیر

حوزہ/ ہمارے علماء کرام، ذاکرین، واعظین، مبلغین و شعراء کرام کے لئے پیغام غدیر بہترین سرمایہ ہے جسے منمبر و محراب سے اور اپنی تقاریر، خطبات، اشعار و دبستان کے ذریعے نسل در نسل پہنچانا اہم فریضہ ہے، لہٰذا غدیر خم کے پیغام اور اعلان ولایت علی مولا علیہ السلام کو مزید عام کریں۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام کا سویرا ہوا، دنیا کی قسمت جاگ گئی اور دور دور تک نور و سُرور کا سماں ہوا۔ غدیر خم جس کی ہر موج شہرت و عظمت دوام سے ہمکنار ہوئ۔ غدیر خم جس کے فکر انگیز ساحل پر پیام الٰہی کی صیانت کا اہتمام ہوا اور غدیر خم جہاں اللہ نے اپنی نعمت کی تکمیل کی دین اسلام کو سند قبولیت حاصل ہوئی۔

سب سے پہلے ان حضرات کے لیے حوالہ دینا لازمی ہے جن کا ذوق عقیدہ ہے کہ ہمارے لیے قرآن کریم کافی ہے یا قرآن مجید سے حوالہ پیش کرنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں تو ان کے لیے سورۃ مائدہ کی 55 ویں نمبر آیت مبارکہ "انما ولیکم اللہ و ھم راکعون" پیش خدمت ہے۔ (تمہارا ولی اللہ ہے، اس کا رسولؐ ہے اور صاحبان ایمان نمازی ہیں جو حالات رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔)

آج پوری دنیا میں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ (جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی بھی مولا ہے) کی سدا گونج رہی ہے جسے حضور سرور کائناتؐ نے غدیر خم میں 16 مارچ، 632 عیسوی، جب آپؐ کی عمر مبارک 63 سال کی تھی اور مولا علیؑ 32 برس کے تھے تب ولایت علی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان جانشینی کی خوشی انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 1391 واں اور قمری حساب و کتاب کے مطابق 1435 ویں یوم خوشی کا موقع ہے کیونکہ تاجدار انبیاءؐ نے تاج پوشی کا اہتمام خالق کائنات کے حکم سے 10/ ہجری کو اپنے آخری حج کے بعد 18 ذی الحجہ کو اعلان کیا۔ یہ مبارک دن عالم اسلام کی انتہائی فرحت بیز و بہجت انگیز یادوں کو اپنے کلیجے سے لگائے ہوئے ہے:
کہا علی کا ہاتھ تھام کر
نبی نے خم میں یہ کہا
بغور دیکھ لے سبھی
یہی ہے جانشیں میرا
کہا یہ جب رسول نے علی علی
ہے سب کے مولا جسے
تو جھوم کے ہر عاشقٍ علی نے دی سدا
علی پسند ہے، بہت پسند ہے

امت مسلمہ کے لیے تاریخی شواہد تحریر کرنا ضروری ہے۔ مولا علیؑ کے سر پر سیاہ عمامہ باندھا۔ لوگوں نے مبارکبادیاں دینی شروع کیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی نمایاں الفاظ و پُرتپاک انداز میں لاکھوں حجاج کرام کے سامنے مبارک باد دی۔ جبرئیلؑ نے بھی بزبان قرآن اکمال دین اور اتمام نعمت کا مرْدہ سُنایا۔ (نہج الوصول صدیق حسن، ص 13، تفسیر ثعلبی فتح البیان، جلد ا، ص 48)

راقم الحروف اس مضمون کے عنوان کی جانب قارئین کرام کا توجہ مبذول مرکوز کرواناچاہتاہے "ولایت علیؑ لوگوں تک نہ پہنچائی تو رسالت ناتمام اور دین ناقص رہے گا " اللہ سبحانہ تعالٰی اپنے حبیبؐ کی زندگی کے آخری لمحے میں آخر پُرزور انداز میں وحی ہوئی 'ولایت علیؑ لوگوں تک نہ پہنچائی تو رسالت ناتمام' آپؐ کی 63 سالہ محنت و مشقت، جانفشانی، جنگ اُحد، بدر و حنین، خیبر و خندق، رومیوں کی شکست، مُعجزہ شق القمر، معراج جسمانی، اور فتح مکہ کی فتح مبین ہیں۔ پھر بھی ان سب کامیابیوں کے باوجود رحمت العالمین کو اعلان ولایت میں خوف کیوں؟ اس کے جواب کی تلاش میں رسالت مآب کی زندگی میں 23 سال قبل تاریخ کے اوراق میں جھانکنا ہی ہوگا۔ ہجرت حبشہ یعنی ۵ بعثت، دل شگافتہ واقعہ یہ ہے کہ اعلان نبوت کے ہوتے ہی عرب کی زمین اور عرب کے آسمان یعنی اپنے پرائے سب دُشمن ہوگئے۔ ان دُشمنوں میں ابُوسفیان، ابو جہل اور ابو لہب نمایاں تھے۔ مورِخین کا کہنا ہے کہ دُشمنوں نے آپؐ کو کمبل اوڑھا کر جان سے مارنے کی کوشش کی۔ دُشمنوں نے اٍس قسم کے مصائب و آلام سے زندگی دو چار کر رکھی تھی کہ زندگی گزارنا بھی کافی دشوار ہوگیا تھا۔

حالانکہ پروردگار نے قرآن مجید کے سورۃ آل عمران کی آیت مبارکہ نمبر ۳۱ کے ذریعے فرمایا "کہہ دیجئے اے پیغمبرؐ! اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تاکہ خدا تمہیں دوست رکھے اور تمہارے گناہ بخش دے اور خدا تو بخشنے والا مہربان۔" قارئین کرام یہ بھی ملاحظہ فرمائیں "میں تم لوگوں میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت اہل بیت۔" (بحار الانوار جلد 23، صفحہ 41)

چند سخت گیر دہشت گرد، منافقین صحابہ کے لبادہ میں تھے جن سے یہ خوف تھی کہ جس طرح اعلان نبوت کے بعد حبیب خدا کے دشمن بن گئے اسی طرح اعلان ولایت کے بعد اہل بیت کے جانی دشمن ہو جائیں گے، سنگین حالات کے مد نظر سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر ۲۳ کا نزول ہوا "۔۔۔اسالکم علیہ اجرا اٍلا المودہ فی القربیٰ۔۔۔" ترجمہ پیش نظر ہے 'رسالت کے بدلے کوئی اجرت نہیں مانگتا بجز اہل بیت سے مودت کرنے کے۔'

سرور کائناتؐ نے مولا علیؑ کو جانشین کیوں منتخب کیا اور تاج پوشی کیوں کی؟ قارئین کرام اس روایت پر ذرا تدبر و تفکر کریں جس میں حضور اکرمؐ نے مولا علیؑ کو مخاطب کرکے فرمایا 'وانت منی بمنزلت ہارون من موسیٰ الا اللہ انہ لا نبی بعدی' تمہیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ہارون کو موسٰیؑ سے حاصل تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ یہ بھی لائق اظہار ہے کہ مولا علیؑ کی شان میں مشہور آیات جیسے آیۂ تطہیر، آیۂ صالح المومنین، آیتہ ولایت، آیۂ مباہلہ، آیۂ نجوا، آیۂ اطعام اور آیۂ بلغ بعد ازاں مولا علیؑ کی شان میں مشہور احادیث جسے آپ کے لیے ذکر کیا جا رہا ہے: حدیث مدینہ، حدیث سفینہ، حدیث نور، حدیث منزلت، حدیث خیبر و خندق، حدیث طیر،حدیث ثقلین(عبقات الانوار)۔ بیک وقت علم و شجاعت پر قابو، اسلام پر علی کے احسانات، آپؑ کا زہد و تقویٰ، ،علم، حلم، صداقت، عدل، انصاف، سخاوت، فضائل و مناقب وغیرہ خصوصیات اپنے آپ میں بے مثل تھے:
اوصاف علی بہ گفتگو ممکن نیست
گنجائش بحر در سبُو ممکن نیست
من ذات علی بواجبی کے دانم
الا دائم کہ مثل او ممکن نیست

یہ اظہر المنشمس کی مانند روشن کہ منافقین آغاز سے ہی خدا کے اس دین کو نقصان پہنچانے پر آمادہ تھے۔ قدم قدم پر تخریبی حرکتیں، مخالف تشہیر کرتے رہے، بہر کیف توحید کا پرچم لہرایا۔ اسی ضمن میں قرآن کریم کا پانچواں سورۃ اور اد کی تیسری آیت منکروں کی شکست اور مومنوں کو سکون قلب باعث بنتی ہے: "آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا نیز تم پر اپنی نعمت بھی پوری کر دی اور اسلام کے آئین کو تمہارے لیے پسند کر لیا۔" حافظ اعلٰی محدث ابو نعیم اصبہانی، بےمثل مفسر فخرالدین رازی اور ابوالسعود، مشہور و معروف دانشور خوارزمی اور سبط ابن جوزی نیز حافظ ابوبکر بغدادی جیسے مورخ اور واحدی جیسے تاریخ قرآن پر عبور رکھنے والے دانشمند لکھتے ہیں کہ یہ آیۂ غدیر خم کی مسرت انگیز تقریب کے موقع پر نازل ہوئی۔

دستار باندھ کر حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو رسول اکرمؐ بڑی حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے رہے۔ یہ دستار عرب کا تاج ہے۔ رسول اسلامؐ اس دستارٍ فضیلت کو دیکھ کر خود بھی شاد ہوتے تھے اور اسلامی معاشرہ میں علیؑ کی دستار بندی خو زندہ رکھنے کے خواہشمند بھی تھے۔ (الکوکب الدرتیہ، سیخ عبد الرؤف منادی، جلد ا، صفحہ 20)

قارئین کرام کا خطبۂ غدیر کے اہم جز کی طرف توجہ مرکوز کرانا چاہوں گا۔ حبیبؐ خدا مجمع سے ارشاد فرما رہے ہیں: "ہاں! جو آدمی یہاں بیٹھے سُن رہے ہیں انہیں چاہیے کہ اس حکم کو اُن پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔"

حضور اکرمؐ کی خواہش تھی کہ اس 'حدیث شوق' کا ربط و تسلسل برقرار رہے جن کے کانوں تک موج صدائے نبوت پہنچی وہ انہیں بھی بتادیں جو اس لمحے لذت گفتار رسالت سے بہرہ مند نہیں ہو سکے، بلکہ ایک نسل دوسری نسل کو آگاہ کرے اور غدیر خم کا پیغام نسل در نسل سے نئی نسل تک مسلسل پہنچتا رہے۔

نجف کے شاہ کو دکھڑا سنانے جاؤنگا
علیؑ خدا کے ولی کو سنانے جاؤنگا

ہمارا مقصد، غدیر خم، اعلان ولایت، اس حوالے سے خدا کا فرمان، ارشاد سرکارٍ دو جہاںؐ، علمائے کرام کی فکر و آگہی، کاروان رسالت، نوائے سروش، فرازٍ منمبر، دستارٍ فضیلت، عظمت ولایت، جشن تہنیت، علیؑ مولا، دامان غدیر، پیمان غدیر، خطبۂ غدیر کی اہمیت، تمام مومنین و مومنات کی زندگی اور آخرت کے لیے ولایت کی اہمیت و فضیلت کا خصوصی و وسیع مطالعہ، غدیر خم کے خطبوں کی پیروی اور اس کے پیغام پر عمل پیراں ہونا ہیں۔

ہمارے علماء کرام، ذاکرین، واعظین، مبلغین و شعراء کرام کے لئے پیغام غدیر بہترین سرمایہ ہے جسے منمبر و محراب سے اور اپنی تقاریر، خطبات، اشعار و دبستان کے ذریعے نسل در نسل پہنچانا اہم فریضہ ہے، لہٰذا غدیر خم کے پیغام اور اعلان ولایت علی مولا علیہ السلام کو مزید عام کریں۔


تبصرہ ارسال

You are replying to: .