۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 391877
13 جولائی 2023 - 06:12
مباہلہ

حوزه/ واقعۂ مباہلہ 24 ذی الحجہ سنہ 9 ہجری کو رونما ہوا۔ شیعہ عقائد کی رو سے نجران کے عیسائیوں اور رسول خداؐ کے درمیان پیش آنے والا واقعۂ مباہلہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی رسالت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کی خاص فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے، کیونکہ آپؐ نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی، فاطمۂ زہراءؑ، اپنے داماد امام علیؑ، اپنے نواسے حسنؑ اور حسینؑ کو ساتھ لے کر آئے ہیں اور یہ امر آپؐ کی صداقت اور سچائی کی علامت قرار پایا۔

ترتیب و تنظیم : جعفر حسن سبحانی

حوزہ نیوز ایجنسی| واقعۂ مباہلہ 24 ذی الحجہ سنہ 9 ہجری کو رونما ہوا۔ شیعہ عقائد کی رو سے نجران کے عیسائیوں اور رسول خداؐ کے درمیان پیش آنے والا واقعۂ مباہلہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی رسالت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپؐ کے ساتھ آنے والے افراد کی خاص فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے، کیونکہ آپؐ نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی، فاطمۂ زہراءؑ، اپنے داماد امام علیؑ، اپنے نواسے حسنؑ اور حسینؑ کو ساتھ لے کر آئے ہیں اور یہ امر آپؐ کی صداقت اور سچائی کی علامت قرار پایا۔

مباہلہ کے معنی

"مباہلہ" کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں (الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بہل) "بہلہ اللہ" یعنی اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔ (تفسیر زمخشری، ج1، ص: 368) لفظ "مباہلہ" مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔( تفسیر نمونه، ج‌2، ص580)

اصطلاحی معنی

ابتہال کے معنی میں دو اقوال ہیں: 1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ 2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔(مجمع البیان ، ج2، ص 762 تا 761)

مباہلہ کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد یا دو گروہ ایک دوسرے پر لعن و نفرین کریں۔ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔

قرآن میں مباہلہ کا ذکر

آیت مُباہلہ سورہ آل عمران کی 61ویں آیت ہے جس میں مباہلہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین اس آیت کو اصحاب کساء یعنی پنچتن پاک خصوصا امام علیؑ کے فضائل میں شمار کرتے ہیں۔ اس آیت نے امام علیؑ کو پیغمبر اکرمؐ کا نَفْس اور جان قرار دیا ہے۔ امام رضاؑ اس آیت کو قرآن کریم میں امام علیؑ کی سب سے بڑی فضیلت قرار دیتے ہیں۔

آیت کا متن اور ترجمہ

فَمَنْ حَاجَّک فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَک مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکاذِبِینَ (اے پیغمبرؐ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ! ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو۔ پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔

اہل سنت کے مفسرین زمخشری، فخر رازی، بیضاوی اور دیگر نے کہا ہے کہ "ابناءنا" ہمارے بیٹوں سے مراد حسنؑ اور حسینؑ ہیں اور "نسا‏‏ءنا" سے مراد فاطمہ زہراءعلیہا السلام اور "انفسنا" ہمارے نفس اور ہماری جانوں سے مراد حضرت علیؑ ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرتؐ کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔

مباہلہ کی شرائط

جیسا کہ ہم نے مباہلہ کی تعریف میں کہا، مباہلہ ایک قسم کی دعا ہے ، اس لحاظ سے جو شرائط دعا کے لیے ذکر کئے گئے ہیں ، مباہلہ کے لئے بھی ضروری ہیں۔لیکن چونکہ مباہلہ ایک خاص قسم کی دعا ہے ، اس لئے اس کی خاص خصوصیات اور شرائط ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1. جو شخص مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ تین دن تک اپنے آپ کی اصلاح کرے۔

2. روزہ رکھے

3. غسل کرے،

4. جس کے ساتھ مباہلہ کرنا چاہتا ہے اس کے ہمراہ صحرا میں جائے

5. مباہلہ انجام پانے کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔

6. اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو مد مقابل کے دائیں ہاتھ کی انگیوں میں ڈال دے۔

7. اپنے سے شروع کرتے ہوئے کہے: خداوندا تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے واقف ہے اور رحمان و رحیم ہے اگر میرے مد مقابل نے کسی حق سے انکار کیا ہو اور باطل دعویٰ کررہا ہو تو آسمان سے اس پر ایک بلا نازل کرنا اور اسے درد ناک عذاب سے دوچار کرنا۔

اس کے بعد دوبارہ اسی دعا کو دہرائے اور کہے: اگر وہ شخص حق سے انکار کرکے باطل کا دعویٰ کررہا ہے تو اس پر آسمان سے ایک بلا نازل کرکے اسے عذاب سے دوچار کرنا۔

تاریخ میں واقعہ مباہلہ کے ذریعے استدلالات:

تاریخ میں متعدد بار اہل بیت (ع) کی حقانیت کے اثبات کے لیے واقعہ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور امیر المؤمنین (ع)، امام حسن (ع)، امام حسین (ع) اور باقی آئمہ طاہرین (ع) اور دیگر نے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کےلئے اس واقعے کے ذریعے سے استدلال کئے ہیں۔ یہاں چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں:

امام موسی کاظم (ع) کا استدلال:

ہارون عباسی نے امام کاظم (ع) سے کہا: آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ ہم نبی (ص) کی نسل سے ہیں حالانکہ نبی (ص) کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خدا (ص) کی بیٹی کی اولاد ہیں ؟امام کاظم (ع) نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھو۔ ہارون نے کہا: اے فرزند علی (ع)، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا ہی پڑے گی، اور آپ اے موسی (ع) ! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ۔ مجھے یہی بتایا گیا ہے اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش کریں اور آپ فرزندان علی (ع) دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ( ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی) اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔

امام کاظم (ع) نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے ؟

ہارون نے کہا: ہاں بولیں،

امام (ع) نے فرمایا:

أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ"۔

ترجمہ: اور ہم نے عطا کیے انہیں اسحٰق اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسٰی اور الیاس کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔

عیسی (ع) کا باپ کون ہیں ؟

ہارون نے کہا: ان کا کوئی باپ نہیں ؟

امام (ع) نے فرمایا:

پس خداوند نے مریم (س) کے ذریعے انہیں انبیاء کی نسل سے ملحق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہ (س) کے ذریعے رسول اللہ (ص) کی نسل سے ملحق فرمایا ہے، کیا پھر بھی بتاؤں ؟

ہارون نے کہا: ہاں بولیں،

چنانچہ امام (ع) نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:

کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ (ص) نجران کے نصارا کے ساتھ مباہلے کے لیے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے نیچے جگہ دی ہے ۔ پس آیت میں ہمارے بیٹوں " ابنائنا " سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین " نسائنا " سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں " انفسنا " سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔

پس خداوند نے آیت مباہلہ میں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو رسول اللہ (ص) کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اہل بیت (ع) رسول اللہ (ص) کی نسل اور ذریت ہیں۔

امام رضا (ع) کا استدلال:

مامون عباسی نے امام رضا (ع) سے کہا: امیر المؤمنین (ع) کی عظیم ترین فضیلت جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے، کیا ہے ؟

امام رضا (ع) نے کہا: امیر المؤمنین (ع) کی فضیلت مباہلہ میں اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:

رسول خدا (ص)، نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع)، جو آپ (ص) کے بیٹے ہیں، کو بلوایا اور حضرت فاطمہ (س) کو بلوایا جو آیت میں " نسائنا " کا مصداق ہیں اور امیر المؤمنین (ع) کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق " انفسنا " کا مصداق اور رسول خدا (ص) کا نفس اور آپ (ص) کی جان ہیں اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ (ص) کی ذات با برکت سے زیادہ جلیل القدر اور افضل نہیں ہے، پس کسی کو بھی رسول خدا (ص) کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہیے۔

بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند نے " ابناء " کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے، جبکہ رسول خدا (ص) صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، " نساء " بھی جمع ہے، جبکہ آنحضرت (ص) صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ " انفس " کو بلوانے سے مراد رسول خدا (ص) کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپ (ص) نے امیر المؤمنین (ع) کے لیے بیان کی ہے، وہ خود بخود ختم ہو جاتی ہے !

امام رضا (ع) نے جواب دیا: نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں، بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر ( اور حکم دینے والے ) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خدا (ص) نے مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالب (ع) کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (ع) وہی نفس ہیں جو قرآن میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔

پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔

(المفید، الفصول المختاره ،ص 38)

سعد ابن ابی وقاص کا استدلال:

عامر ابن سعد ابن ابی وقاص سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتا ہے کہ: معاویہ نے سعد سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو ؟

سعد نے کہا:جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر سبّ و شتم نہیں کروں گا اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا، بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیت:فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ...

نازل ہوئی، تو رسول خدا (ص) نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:

اللهم هؤلاء اهل بيتي، یعنی خداوندا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Syed Razi Ghalib Mehdi PK 14:03 - 2023/07/13
    0 0
    عید مباہلہ مبارک