۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حجت الاسلام والمسلمین سید حافظ ریاض حسین نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل قرارداد مقاصد قرآن و حدیث کے مطابق قانون سازی پر زور دیتی ہے۔ قانون سازی کسی فرقے یا مسلک کی سوچ کے مطابق نہیں، بلکہ تمام مکاتب فکر کے متفق علیہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی۔ کسی ایک فرقے کی سوچ کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل قرارداد مقاصد قرآن و حدیث کے مطابق قانون سازی پر زور دیتی ہے۔ قانون سازی کسی فرقے یا مسلک کی سوچ کے مطابق نہیں، بلکہ تمام مکاتب فکر کے متفق علیہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی۔ کسی ایک فرقے کی سوچ کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دیں گے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 80 ہزار سے زائد لوگ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اب پاکستان میں ایک بل پاس ہوا ہے کہ جس میں توہین صحابہ و اہل بیت کی سزا تین سال کے بجائے دس سال یا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ یہ ملک اس قسم کے مزید متنازع بلوں کا شکار نہیں ہوسکتا۔

آیت الله حافظ ریاض نقوی نے کہا کہ آج پاکستان کے اہل سنت ہم شیعہ سے زیادہ اہل بیتؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بل کی مذمت کر رہے ہیں۔ قرار داد مقاصد میں یہ طے پایا تھا کہ قانون قرآن و حدیث کے مطابق بنایا جائے گا، نہ سنیت اور نہ ہی شیعیت کے مطابق ہوگا، لہٰذا قانون کو کسی فرقہ کی خاص فکر کے مطابق نہیں، بلکہ قرآن وحدیث کے مطابق منظور کیا جائے گا اور ہم کسی خاص گروہ کی فکر کا عکاس بل تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

علی مسجد جامعہ المنتظر لاہور میں خطاب کرتے ہوئے آیت الله حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ جب ملک مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ جیسی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، تو فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے قومی اسمبلی سے متنازعہ بل پاس کروا دیا گیاہے۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے، کسی خاص فرقہ کا نہیں ۔یہ سنی شیعہ نے مل کر بنایا تھا۔ بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ یقینا سنی نہ تھے۔ ان کا نکاح بھی شیعہ عالم دین نے پڑھایا اور جنازہ بھی شیعہ عالم نے ہی پڑھایا۔ جب ان سے پوچھا گیا پاکستان میں قانون کونسا نافذ ہو گا؟ تو فرمایا: نہ سنی کا نہ شیعہ کا بلکہ اسلام کا قانون نافذ ہوگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد جو اتباع اہل بیتؑ کرے اور ان کے قول و فعل پر عمل پیرا ہو ان کو ایک بدخصلت گروہ کافر کہتا ہے۔ اور جو اصحاب اور دوستوں کا قائل ہو ،ان کے نزدیک بس وہی مسلمان ہے۔ رئیس الوفاق المدارس نے وزیر اعظم شہباز شریف پر زوردیا کہ بل دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے ،اسے ختم کروائیں۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اس ملک کی کیا حالت ہو گی کہ جس میں کہا جائے ”رسول اللہ اور صحابہ کرام“ اور درمیان سے اہل بیت ؑکا نام ہی نکال دیا جائے۔حالانکہ اہل بیتؑ، رسول خدا کی جان، جگر اور بضعہ ہیں اور منیت کی منزل پر فائز ہیں۔ حدیث کساء میں اہل بیت کن افراد کو قرار دیا گیا۔ آپ لوگ اگر ازواج رسول کو اہل بیتؑ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی، لیکن پانچ سو سال تک لکھی جانے والی کتابیں کہ جو 80 فیصد درست ہیں، ان میں تو لکھا ہے کہ ” زوجہ رسول ام سلمیٰ سلام اللہ علیہا سے رسول نے فرمایا” انت علی الخیر“ لیکن چادر میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ مباہلہ کے موقع پر رسول اللہ ”ابنائنا“کی جگہ پر حسن و حسین کو اور” انفسنا“کی جگہ علی کو اور ” نسائنا “ کی جگہ پر جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لے گئے۔ حالانکہ اس وقت مدینہ کے اندر ہزاروں صحابہ اور صحابیات موجود تھیں اور آیت میں جمع کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے اور موقع بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود ان چار شخصیات کو لے گئے تاکہ پتہ چلے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو جھوٹوں کے مقابلے میں جا رہے ہیں۔ ان کے علم، عمل، رفتار اور کردار میں جھوٹ نہیں پایا جا سکتا، یہی وہ ہیں جو اسلام حقیقی کے محافظ ہوں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .