حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام و المسلمین حاج شیخ حسین انصاریان نے گزشتہ شب حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہعلیہا میں منعقدہ ایک معارفی نشست سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: سب سے برتر، بلندترین اور مفید ترین علم، پروردگار عالم کی معرفت کا علم ہے۔
انہوں نے کہا: خدا کی معرفت کا علم خودبخود حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے معلم کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر استاد کے توحید اور خدا شناسی کے میدان میں داخل ہو جائے تو وہ گمراہی کا شکار ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید میں تقریباً چھ مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم کتاب و حکمت کے عنوان سے متعارف کروایا ہے۔ "کتاب" سے مراد قرآن مجید ہے اور "حکمت" سے مراد وہ مضبوط اور پائیدار سنت اور علم ہے جو قیامت تک تبدیل نہیں ہوگا۔
استاد انصاریان نے وضاحت کی کہ صرف عربی زبان جاننا، قرآن کی معارف کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں۔ انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری کا واقعہ بیان کیا جو عرب النسل تھے لیکن اس کے باوجود آیت "اطیعوا الله واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم" کی تفسیر کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
انہوں نے کہا: جابر نے عرض کیا کہ میں اللہ کی اطاعت کا مطلب سمجھتا ہوں کیونکہ وہ علیم، حکیم، خالق اور مالک ہے؛ اور میں رسول کی اطاعت کا مطلب بھی سمجھتا ہوں کیونکہ ان کی عقل، علم، ایمان، عمل اور محبت سب سے بلند ہے۔ لیکن "اولوالامر" سے مراد کون ہیں، یہ میں نہیں جانتا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ـ جیسا کہ اہل سنت کے ایک عالم سے منقول ہے ـ جابر کو فرمایا کہ "اولوالامر" سے مراد علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں، اور پھر آپ نے بارہ ائمہؑ کے نام لے کر فرمایا کہ یہی وہ ہستیاں ہیں جن کی اطاعت واجب ہے۔ کیونکہ یہ سب علمی، روحانی، ایمانی، اخلاقی اور عملی طور پر رسول اللہؐ سے متصل ہیں۔
استاد انصاریان نے مزید کہا: اگر کوئی شخص عرب زبان بھی ہو یا تیس سال عربی پڑھی ہو، تب بھی وہ قرآن کی بعض آیات جیسے "ید الله فوق ایدیهم" کی صحیح تفسیر نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ حقیقی معلم سے علم حاصل نہ کرے۔
انہوں نے کہا: خداوند متعال کے لیے جسمانی صفات جیسے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، شکم وغیرہ ثابت کرنا، بعض غیر شیعہ علما کی غلطی ہے جو انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر کے لیے اہل بیتؑ کے علم کی طرف رجوع نہیں کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ "ید" دراصل "قدرت" کے لیے کنایہ ہے، کیونکہ انسان کے اکثر اعمال ہاتھ سے انجام پاتے ہیں، اس لیے "ید الله فوق ایدیهم" کا مطلب ہے کہ خدا کی قدرت تمام طاقتوں سے برتر ہے۔
انہوں نے امام رضا علیہ السلام کی مشہور حدیث حدیثِ سلسلۃ الذہب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "کلمہ لا الہ الا الله میرا قلعہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو گیا"۔ اس کے بعد امامؑ نے فرمایا: "بشروطها و انا من شروطها" یعنی توحید بھی شرط رکھتی ہے اور میں ان شرائط میں سے ہوں، مطلب یہ کہ توحید کے لیے رہنما کی ضرورت ہے۔
استاد انصاریان نے زور دیتے ہوئے کہا: شیعہ علما کا فرض ہے کہ وہ اہل بیتؑ کی تعلیمات کو خود سیکھیں اور بغیر بخل کے دوسروں تک پہنچائیں۔ اگر کوئی عالم علم کو چھپائے اور امت کو معارف اہل بیتؑ کی ضرورت ہو تو ایسا عالم دوزخ کا مستحق ہوگا، اور روز قیامت اس کی بدبو اہل جہنم کو اذیت دے گی۔
انہوں نے کہا: آج اگر کسی کے پاس معارف اہل بیتؑ اور قرآن کا علم اور اسے منتقل کرنے کی صلاحیت ہے تو اس پر واجب عینی ہے کہ وہ منبر پر جائے اور لوگوں کو تعلیم دے۔ منبر اہل بیتؑ کے پیغام کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
استاد انصاریان نے مزید کہا: خود امیرالمومنین علیہ السلام منبر کو واجب سمجھتے تھے، اور "نہج البلاغہ" ان کے منبر ہی کا مجموعہ ہے۔ ہمارے اکابر علما منبری تھے اور حتیٰ کہ گھر میں بھی اپنے اہل خانہ کے سامنے منبر پر بیٹھ کر علم و معارف بیان کرتے تھے۔ ہمیں منبر کی برکتوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔









آپ کا تبصرہ