بدھ 3 ستمبر 2025 - 18:00
دلائلِ ولایت فقیہ (دلیلِ نقلی)

حوزہ/ زمانۂ غیبت میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے امامِ عصر علیہ السلام نے شیعیان کو راویانِ حدیث کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا، اور یہی ارشاد ولایتِ فقیہ کے بنیادی دلائل میں شمار ہوتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | شیعہ امامیہ عقیدے کے مطابق امامِ عصر علیہ السلام کی غیبتِ کبریٰ کے دور میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اہلِ ایمان کو راویانِ حدیث کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ اہلِ بیت علیہم السلام کے ارشادات کو ان کے حقیقی معانی و مفاہیم کے ساتھ سمجھنا اور ان سے فردی و اجتماعی احکام کا استنباط کرنا انتہائی باریک بینی اور علومِ دینی میں عمیق مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیثِ ائمہ معصومین علیہم السلام سے احکامِ شرعیہ اخذ کرنا ایک نہایت دقیق اور دشوار عمل ہے۔

توقیعِ امام عصر علیہ السلام

شیخ صدوقؒ نے اپنی معروف تصنیف "کمال الدین و تمام النعمة" میں اسحاق بن یعقوب کا وہ مکتوب روایت کیا ہے جسے امام مهدی علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا گیا تھا۔ اس خط میں کئی سوالات عرض کیے گئے تھے جن کے جواب میں امامِ زمان علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

> "اور جہاں تک پیش آمدہ واقعات کا تعلق ہے تو ان میں تم ہمارے راویانِ حدیث کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ تم پر میری حجت ہیں اور میں ان پر اللہ کی حجت ہوں۔"

(کمال الدین و تمام النعمة، ج ۲، ص ۴۸۴)

اس توقیع کے آغاز ہی میں امام علیہ السلام نے شیعیان کو ہدایت دی کہ زمانۂ غیبت میں نئے مسائل و حوادث کی صورت میں راویانِ حدیث اہل بیت علیہم السلام سے رجوع کریں اور اپنے دینی فرائض ان سے دریافت کریں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "رواة حدیثنا" سے مراد کون ہیں اور "حوادثِ واقعه" سے مقصود کیا ہے؟

لفظ "حوادث" دراصل "حادثہ" کی جمع ہے۔ امام کے فرمان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حوادث دینی اور دینیات سے وابستہ امور ہیں جن میں اہلِ ایمان کی ذمہ داری راویانِ حدیث کو طے کرنی ہے۔ اب یہ غور طلب ہے کہ آیا اس سے مراد انفرادی مسائل ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ، یا پھر وہ اجتماعی و سیاسی مسائل جو ملتِ اسلامیہ کو درپیش ہوں، مثلاً جہاد، دفاع، بیرونی طاقتوں سے تعلقات، اقتصادی و ثقافتی روابط وغیرہ؟

بظاہر یہ بعید ہے کہ امام علیہ السلام کا مقصود محض انفرادی مسائل ہوں، کیونکہ ان میں رجوع بالعموم ائمہ علیہم السلام کے زمانے ہی میں علماء اور وکلائے ائمہ کے ذریعے ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا واضح ہے کہ "حوادثِ واقعه" سے مراد بالخصوص وہ اجتماعی مسائل ہیں جو ملتِ مسلمہ کے عمومی حالات سے وابستہ ہوں۔

راویانِ حدیث کون ہیں؟

امام کے توقیع نامے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ راویانِ حدیث وہ حضرات ہیں جو نہ صرف احادیث سے آشنائی رکھتے ہیں بلکہ ان کی صحت و ضعف میں امتیاز کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور ساتھ ہی علومِ دینی کی تمام ضروری مہارتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں تاکہ احکامِ الٰہی کو ٹھیک طرح سمجھ سکیں اور ان سے شرعی نتائج اخذ کرسکیں۔

اسی بنا پر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ایسے افراد صرف اور صرف فقہاء و مجتہدین ہیں جو قرآن و سنت سے فردی اور اجتماعی ہر طرح کے مسائل کے احکام مستنبط کرتے ہیں اور شیعیانِ اہل بیت کے لیے راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

یہی مفہوم اس جملے سے بھی ظاہر ہے کہ "فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَیْکُمْ"۔ کیونکہ جب راوی کی رائے اور استنباط دوسروں پر حجت ہو تو اس کے قول و اجتہاد ہی کو معیار قرار دیا جاتا ہے، نہ کہ صرف متنِ حدیث کو۔ اگر صرف اصل حدیث ہی کافی ہوتی تو امام علیہ السلام یہ نہ فرماتے کہ وہ خود تم پر میری حجت ہیں۔

کلامِ شیخ انصاریؒ

اس ضمن میں شیخِ اجل، فقیہِ نامدار شیخ انصاریؒ کا بیان نہایت وقیع ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

"امام کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مقصود 'حوادث' سے وہ تمام امور ہیں جن میں عرف، عقل اور شریعت کے مطابق کسی رہنما اور رئیس کی طرف رجوع کرنا ناگزیر ہے۔ اور یہ کہنا مشکل ہے کہ 'حوادث' صرف شرعی مسائل تک محدود ہوں۔"

(المکاسب المحرمة، ج۳، ص۵۵۴)

یہ بحث ابھی جاری ہے...

مأخوذ از کتاب نگین آفرینش

📌 نوٹ: "توقیع" سے مراد امامِ زمان علیہ السلام کے وہ خطوط ہیں جو شیعوں کے سوالات کے جواب میں تحریر ہوتے اور نوّابِ اربعہ کے ذریعے مومنین تک پہنچتے تھے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha