ہفتہ 3 مئی 2025 - 11:24
فکری و سماجی خرابیوں کی اصل جڑ قرآن سے دوری اور بےتوجہی ہے؛حجت الاسلام رستم‌نژاد

حوزہ/ حوزہ علمیہ قم میں منعقدہ "قرآنی اساتذہ کی تکریم" کے پہلے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین مهدی رستم‌نژاد نے کہا ہے کہ قرآن مجید کی طرف حقیقی رجوع ہی اسلامی معاشرے کی نجات اور دنیاوی و اخروی مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے بہت سے فکری و سماجی مسائل کی جڑ قرآن سے دوری، سطحی فہم اور اس کے گہرے مفاہیم سے اجتناب ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم میں منعقدہ "قرآنی اساتذہ کی تکریم" کے پہلے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین مهدی رستم‌نژاد نے کہا ہے کہ قرآن مجید کی طرف حقیقی رجوع ہی اسلامی معاشرے کی نجات اور دنیاوی و اخروی مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے بہت سے فکری و سماجی مسائل کی جڑ قرآن سے دوری، سطحی فہم اور اس کے گہرے مفاہیم سے اجتناب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن صرف ختم کے لئے یا ثواب کی نیت سے پڑھنے کی کتاب نہیں بلکہ اختلافات کے وقت معیارِ حق و باطل بھی قرآن ہی ہونا چاہیے۔ اگر اختلاف ہو جائے تو قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اور یہ رجوع صرف ظاہری نہیں بلکہ فکری و عملی ہونا چاہیے۔

حجت الاسلام والمسلمین رستم‌نژاد، جو کہ حوزہ ہائے علمیہ کے سابق معاونِ تعلیمی بھی رہ چکے ہیں، نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی طرف سے قرآن کی تفسیر پر دی جانے والی بار بار تاکیدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم نے ہمیشہ قرآن کی گہری اور دقیق تفسیر پر توجہ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شکایت کی طرف بھی اشارہ کیا جو وہ قیامت کے دن کریں گے کہ "میری امت نے قرآن کو مہجور بنا دیا"۔ اس مہجوریت سے مراد صرف تلاوت نہ کرنا نہیں بلکہ تدبر، فہم اور عمل کو ترک کرنا ہے۔

انہوں نے قرآن کے بارے میں بعض گمراہ کن نظریات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف قرآن کافی ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی ضرورت نہیں، حالانکہ یہ نظریہ گمراہی کا سبب ہے کیونکہ اہل بیتؑ ہی قرآن کے حقیقی مفسر ہیں اور ان کے بغیر قرآن کی درست فہم ممکن نہیں۔

انہوں نے قرآن کی ان آیات کا حوالہ دیا جن میں قرآن کے ساتھ رسول اکرمؐ اور ان کے جانشینوں کی ضرورت کو واضح کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سوره آل عمران کی آیت "وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ" سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہدایت کے لیے کتاب کے ساتھ رسول کی موجودگی بھی ضروری ہے، اور ان کے بعد اہل بیتؑ ہی وہ "نور باقی" ہیں جن سے تمسک انسان کو انحراف سے بچاتا ہے۔

انہوں نے حدیث ثقلین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت، یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے"، لہذا جو شخص صرف قرآن کو لے اور اہل بیت کو چھوڑ دے وہ راہ ہدایت سے گمراہ ہو جائے گا۔

علامہ طباطبائیؒ کی عظیم قرآنی خدمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "تفسیر المیزان" میں انہوں نے قرآن کی تفسیر کو قرآن سے ہی واضح کرنے کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی اہل بیت علیہم السلام کی روایات کے سائے میں آیات کے عمیق معانی کو آشکار کیا۔ ان کا علمی و استنباطی طریقہ، سیاق آیات، تقدم و تأخر اور بلاغی پہلو سے معانی کشف کرنے میں بے نظیر تھا۔

آخر میں انہوں نے قرآنی اساتذہ و محققین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی علمی کاوشیں اسلامی معاشرے کے لیے باعث برکت ہیں، تاہم ضرورت ہے کہ ہم قرآن فہمی کے میدان میں موجود آفات کی نشاندہی کریں تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلیں قرآن کے نور سے صحیح طور پر مستفید ہو سکیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha