حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ تحریری نے کہا کہ قرآن کریم صرف پڑھنے کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ اس کا مقصد انسان کے باطن کی پاکیزگی اور زندگی میں الہی معارف کا نفاذ ہے، تمام قرآنی سرگرمیوں کا محور کا تزکیہ و تربیت ہونا چاہیے۔
استاد اخلاق حوزہ علمیہ تہران آیت اللہ تحریری نے کہا کہ قرآن کریم صرف پڑھنے کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ اس کا مقصد انسان کے باطن کی پاکیزگی اور زندگی میں الہی معارف کا نفاذ ہے، تمام قرآنی سرگرمیوں کا محور کا تزکیہ و تربیت ہونا چاہیے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران میں ادارہ دارالقرآن الکریم کے مدیران و کارکنان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حوزہ علمیہ کے معروف استاد اخلاق آیت اللہ تحریری نے کہا کہ قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ ہے جو ان لوگوں کو راستہ دکھاتا ہے جو فطرتِ حق طلبی کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن کا نزول الفاظ کی صورت میں اس لیے ہوا تاکہ انسان تدبر و تفکر کرے اور الہی دسترخوان سے روحانی غذا حاصل کرے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قرآن کے فیوض سے حقیقی استفادہ تین مرحلوں پر مشتمل ہے: تلاوت، تعلیم اور تزکیہ، اور یہی تزکیہ قرآن کا بنیادی مقصد ہے۔
آیت اللہ تحریری نے کہا کہ “قرآن محض پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ اس کا پیغام ہمارے عمل اور کردار میں جھلکنا چاہیے۔” ان کے بقول، درست تلاوت اور تجوید قرآن کے ساتھ ابتدائی تمسک کا دروازہ ہیں، لیکن اصل مقصود اس کے معارف کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ بعض اوقات قرآنی سرگرمیوں میں افراد حافظِ قرآن تو بن جاتے ہیں مگر اخلاق و دینداری میں کمزور ہوتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ قرآن کی روح ان کے عمل میں ظاہر نہیں ہو رہی۔
استاد خارج فقہ و اصول نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “فہم، علم سے برتر ہے” کیونکہ فہم انسان کو یہ شعور دیتا ہے کہ علم کو کب اور کیسے استعمال کیا جائے۔
آیت اللہ تحریری نے قرآن کو “ربیع القلوب” یعنی دلوں کی بہار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب انسان کے فکری، اعتقادی، عملی اور اخلاقی امراض کا علاج ہے۔
انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا بھی حوالہ دیا کہ “بہت سے قاری ایسے ہیں جن پر قرآن خود لعنت کرتا ہے”، اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ “حقِ تلاوت” صرف الفاظ دہرانے کا نام نہیں بلکہ آیات میں تدبر، معانی کی فہم اور احکام پر عمل کا مجموعہ ہے۔
آیت اللہ تحریری نے آخر میں کہا کہ اگر ہم قرآن کو اپنی زندگی کا عملی دستور بنالیں تو نہ صرف فردی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی پاکیزگی، انصاف اور ایمان کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔









آپ کا تبصرہ