۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
مولانا سید رضا حیدر

حوزہ/ انہوں نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ (اے رسول) قرآن ہم نے آپ پر اس لئے نازل کیا تاکہ لوگ اس میں تدبر اورغور وفکر کریں۔پس قرآن میں وہی لوگ غور و فکر نہیں کرتے جن کے دلوں میں تالا لگا ہوا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ میں مقبرہ سعادت خاں میں عشرہ مجالس کے سلسلہ کی ساتویں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضا حیدر نے کہا: قرآن میں دو طرح کی آیتیں ہیں ایک وہ جو محکمات ہیں اور یہی ام لاکتاب یعنی قرآن اور دین کی بنیاد ہیں اور دوسری وہ ہیں جو متشابہات ہیں۔ جن کا علم اللہ کو ہے یا راسخون فی العلم یعنی جنھیں اللہ خود قرآن کی فہم عطا کرتا ہے کے پاس ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مقبرہ سعادت علی خاں میں” غدیر کا پیغام انسانیت کے نام” عنوان سے مجالس کا سلسلہ جاری ہے ۔مولانا کے خطاب کا محور قرآن کے چھٹے پارے کی آیت ” یٰا اَیُّهَا الرَّسولُ بَلِّغْ ما اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ اِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّاسِ اِنَّ اللهَ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ “ ہے اس حوالے سے یہ بات وہ پہلے ہی صاف کر چکے ہیں کہ غدیر میں منبر سے جو خطبہ رسول نے دیا اور اس خطبہ میں جواعلان ولایت اور اعلان جانشینی فرمایا وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا۔

مولانا نے کہا: غدیر کے پیغام کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ تمام انسانوں سے ہے اس لئے کہ رسول نے بار بار یا معشرالناس کہا ہے۔آج کے خطاب کو مولانا نے قرآن اور قرآن فہمی پر مرکوز کیا۔انھوں نے کہا کہ بے شک قرآن پڑھنا اور قرآن کو دیکھنا اور اسے چھونا باعث ثواب ہے۔لیکن یہ قرآن کا مقصد نہیں ہے۔بلکہ قرآن دین کی بنیادہے ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اختلاف لوگوں کے سوچنے اور ان کی فکر وں میں ہے۔اس لئے صرف پڑھ لینا اور دیکھ ینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اتارنا مقصد ہے تاکہ تم کامیابی کو پہونچو۔اس لئے قرآن میں غور کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ (اے رسول) قرآن ہم نے آپ پر اس لئے نازل کیا تاکہ لوگ اس میں تدبر اورغور وفکر کریں۔پس قرآن میں وہی لوگ غور و فکر نہیں کرتے جن کے دلوں میں تالا لگا ہوا ہے۔اس لئے تعصب،کینہ ، حسداور غرور دلوں سے باہر نہیں نکلتا اور قرآن کی رحمتیں اور برکتیں اندر داخل نہیں ہوتیں۔اس موقع پر مولانا نے کہا کہ دو طرح کے لوگ ہیں ایک اصولی اور ایک اخباری۔اصولی وہ لوگ ہین جن کا عقیدہ ہے کہ قرآن کا حقیقی مفہوم صرف معصومینؑ کے پاس ہے۔وہی سمجھ سکتا ہے جس کا نفس ،ذہن اور فکر طاہر ہو۔۔یہ فہم عطائے پروردگار ہے۔اللہ یہ فہم اسی کو عطا کرتا ہے جنھیں پہلے آزماتا ہے اور آزمائش میں کامیاب ہونے والوں کو ہی علم قرآن عطا کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ حضرت زینب کو اللہ نے ہر طرح سے آزمایا اور وہ ہر امتحان میں کامیاب ہوئیں،ان کا علم عطائے پروردگار ہے۔انھو ں نے کہا جنھیں دین کی بنیاد سے لینا دینا نہیں وہ متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور من ما نی تفسیر یں بیان کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔جبکہ متشابہات کا علم اللہ کو ہے اور راسخون فی العلم کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ نبی نے غدیر میں فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسری اہل بیت۔انھوں نے کہا کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ قرآن اور علی۔نبی کے حوالے سے مولانا نے کہا علی مترجم قرآن ہیں۔تو قرآن کو سمجھنا ہے تو علی کے در پر آنا ہوگا۔آخر میں جناب قاسم کے مصائب بیان کئے تو مجمع گریہ کرنے لگا اور آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .