۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
حقیقی اقدار عظم الشان  کانفرانس

حوزہ/ مولانا علی عباس خان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کامیاب انسان بننے کے لئے ، انسان کو تشخیص ہدف ،محنت ، کوشش، نظم وضبط کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بنا پر انسان اپنی زندگی میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کل تاریخ ۱۶ دسمبر ۲۰۲۲ کی رات ۷بجے سے ۱۰ بجے تک،’’ تعلیم کی حقیقی اقدار‘‘ پر ایک عالیشان کانفرنس،(AKSAD) کرگل اسٹیوڈینز ایسوسیشن دھلی اور(MOA) موومنٹ اوف اکویکنگ کی جانب سے جامعہ ایل‌بیت علیہ السلام میں منعقد ہوا۔ جس میں ہندوستان کے معروف اسلامی دانشور مولانا شیخ علی عباس خان اور پروفیسر مجتبی اور مولانا جواد حبیب کرگلی نے اپنے زریں خیالات کا اظہار فرمایا، اس کانفرنس میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے اسٹیوڈینز اور ریسرچ سکالرز نےشرکت کی تھی ۔

پروفیسر مجتبی نے خطبہ استقبالہ میں حصول علم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ انسان بغیر علم کے ایک صحیح اور معقول مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے اور حصول علم انسان کی بنیادی حق ہے۔اور اسلام بھی اس بات پر تاکید کرتا ہے ۔مسلمان جوانوں کو علم کے ہرمیدان میں اگے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔

مولانا علی عباس خان جو حوزہ علمیہ قم کے معروف اساتید میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنی صدارتی خطبہ میں جوانوں سے مخاطب ہوکر مختلف مسائل پر روشی ڈالتے ہوئے فرمایا انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے جسم اور روح اور ان دونوں کی ضروریات کو پورا کرنا انسان پر واجب ہے۔جانہوں نے مزید کہا کہ میری نظر میں دنیوی اور دینی علوم الگ الگ ہیں ۔دنیوی علومtools کے مانند ہیں اور دینی علوم Aims ہے ۔دنیوی علوم جسمانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور دینی علوم روحی ضروریات کو پوراکرتے ہیں ۔ مزید کہتے ہیں کہ کامیاب انسان بننے کے لئے ، انسان کو تشخیص ہدف ،محنت ، کوشش، نظم وضبط کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہ شروط ہیں جن سے انسان اپنی کامیاب ہوسکتا ہے ۔ اور ایک اسٹیوڈین کو اس پر عمل کرنے کی اشدضرورت ہے ۔

کانفرانس کے آخر میں سوال جواب کا بھی پروگرام رکھا گیا تھا جسمیں طلاب اور طالبات کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیا گیا۔

آخر میں مولانا جواد حبیب کرگلی نے کانفرانس کے شرکاء اور مولانا علی عباس خان کا شکریہ کر ادا کرتے ہوئے ’’ تعلیم کی حقیقی اقدار‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسان دو راہوں سے علم حاصل کرتا ہے جن میں ایک کو ’’ علم الدراسہ‘‘ اور دوسرے کو’’ علم الوراثہ ‘‘کہا جاتا ہے علم الدراسہ وہ راستہ ہے جسمیں انسا ن اسکول ، کالج ، یونیورسٹی اور حوزات میں جاکے استاد ، پروفیسر سے علم حاصل کرتا ہے محنت کرتا ہے ریسرچ کرتا ہے ، لیکن علم الوراثہ وہ راستہ ہے میں انسان دعا، مناجات، توسل کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور اپنا رابطہ خدا سے مضبوط بناتا ہے جتنا انسان اپنا رشتہ خدا سے مستحکم کرے گا اتنا وہ علم الوراثہ کا مالک بنے گا اس لئے خدا جس سے ہدایت کرنا چاہتا ہے اس کے دل علم کی نور کو روشن کرتا ہے ۔

پروگرام کے آخر میں جناب اسماعیل صدر اسٹیوڈینڈ یونین کرگل نے سب شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔کانفرانس کے بعدطعام کا بھی اہتمام کیا گیاتھا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .