حوزہ نیوز ایجنسی| صدیوں سے انسان ایک سوال پر غور کرتا آ رہا ہے: "علم بہتر ہے یا دولت؟" — ایک ایسا سوال جو کئی ذہنوں کو مشغول کیے ہوئے ہے اور جس کا جواب انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے۔ ذیل کی حکایت میں، حضرت علی علیہ السلام کا جواب ایک قیمتی اور با مقصد زندگی کے لیے عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
روایت کے مطابق دس افراد نے باہم مشورہ کیا کہ ہم سب جا کر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے یہی سوال کریں گے۔ اگر انہوں نے سب کو ایک ہی جواب دیا تو سمجھیں گے کہ ان کے پاس کوئی خاص فضیلت نہیں، اور اگر سب کو الگ الگ اور خاص انداز میں جواب دیا تو یقین کریں گے کہ واقعی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے کہ:
"أنا مدينةُ العلمِ وعليٌّ بابُها"
(میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں)
چنانچہ:
1. پہلا شخص آیا اور پوچھا: یا علی! علم بہتر ہے یا دولت؟
حضرت نے فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ علم انبیاء علیہم السلام کی میراث ہے اور دولت قارون، فرعون، ہامان اور شداد کی میراث ہے۔
2. دوسرا شخص آیا: یا علی! علم بہتر ہے یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے، جبکہ دولت کی حفاظت تمہیں خود کرنی پڑتی ہے۔
3. تیسرا شخص: علم بہتر ہے یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ عالم کے بہت سے دوست ہوتے ہیں اور دولت مند کے اکثر دشمن۔
4. چوتھا شخص: علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ علم جتنا خرچ کرو بڑھتا ہے، لیکن دولت خرچ کرنے سے گھٹتی ہے۔
5. پانچواں شخص: یا علی! علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ دولت والا بخیل اور کمینہ کہلاتا ہے، لیکن عالم کو عظمت و بزرگی سے یاد کیا جاتا ہے۔
6. چھٹا شخص: علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ دولت کو چور چرا لیتے ہیں، لیکن علم کو کوئی نہیں چرا سکتا۔
7. ساتواں شخص: علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ دولت وقت کے ساتھ پرانی ہو جاتی ہے، لیکن علم کبھی پرانا نہیں ہوتا۔
8. آٹھواں شخص: یا علی! علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ دولت صرف زندگی تک ساتھ دیتی ہے، جبکہ علم مرنے کے بعد بھی فائدہ دیتا ہے۔
9. نواں شخص: علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ دولت دل کو سخت کرتی ہے، جبکہ علم دل کو روشن کرتا ہے۔
10. دسواں شخص: یا علی! علم یا دولت؟
فرمایا: علم بہتر ہے، کیونکہ دولت انسان میں تکبر پیدا کرتی ہے اور بعض اوقات وہ خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے، لیکن علم انسان کو متواضع بناتا ہے۔
یوں حضرت علی علیہ السلام نے ایک ہی سوال کے دس الگ، منطقی اور حکیمانہ جوابات دیے — اور یوں اپنی درِ علم ہونے کی شان کو ثابت فرما دیا۔
ماخذ: جامع الدرر، جلد ۱، صفحہ ۸۳









آپ کا تبصرہ