۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
تصویر مقالہ

حوزہ/ امام حسین علیہ السّلام جو کئی صدیاں پہلے ایک خاردار صحرا جہاں گرمی کا عالم یہ کہ گویا سورج سوا نیزے پہ آ گیا ہو۔ نہروں کا پانی جیسے خاموش،آبی حیات خدا سے حیات طلب کر رہے ہوں سبز پتے گویا زرد ہو رہے ہوں اس جگہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ دشمن اسلام اور دشمن خدا کے خلاف آواز حریت کو بلند کرتے ہیں۔

تحریر: عنیزہ عابد مجلسی

حوزه نیوز ایجنسی| امام حسین علیہ السّلام جو کئی صدیاں پہلے ایک خاردار صحرا جہاں گرمی کا عالم یہ کہ گویا سورج سوا نیزے پہ آ گیا ہو۔ نہروں کا پانی جیسے خاموش،آبی حیات خدا سے حیات طلب کر رہے ہوں سبز پتے گویا زرد ہو رہے ہوں اس جگہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ دشمن اسلام اور دشمن خدا کے خلاف آواز حریت کو بلند کرتے ہیں۔

آپ کی یہ آواز ہر اس حریت پسند کی آواز ہے جو ظالم کے خلاف دشمن خدا کے خلاف ہر وقت برسر پیکار رہتا ہے. حسین ع کی وہ اواز اُس زمانے کے در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی ظلمت کے اندھیروں کو چیرتی ہوئی ہر زمانے کے لوگوں کے کانوں سے ٹکرائی اور اس آواز کو ہر اس شخص نے پسند کیا اور لبیک کہا جو ظلم سے نفرت کرتا ہے پھر چاہے اس کا مذہب اور مسلک کوئی بھی ہو. آپکی ذات اقدس اپنے اندر ایسی اعلی صفات پنہاں رکھے ہوئے ہے کہ جو بھی آپکے بارے میں پڑھتا ہے وہ آپ سے محبت ضرور کرتا ہے اور اس محبت کے لیے نہ مذہب کی قید ہے نہ مسلک کی۔ کیوں کہ حسین ع عالم انسانیت کے حسین ع ہیں۔

وہ شخصیات، جنہوں نے امام حسین علیہ السّلام کے قیام کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آپ کو حق بجانب قرار دیا مندرجہ ذیل ہیں :

ابن خلدون

ظالم و ستمگر سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسین ع اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور جنگ کرنے کے حقدار تھے جب یزید فاسق و فاجر کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسین ع نے اس کے خلاف قیام کرنے کو اپنے اوپر واجب سمجھا کیوں کہ خود کو اس کا اہل سمجھتے تھے۔( ۱)

ڈاکٹر طہٰ حسین ( جامعہ قاہرہ، مصر)

اہل سنت کے مصنف بیسوی صدی کے موثر ادبا اور دانشوروں میں سے ایک تھے. قیام حسین ع کے بارے میں کہتے ہیں حسین ع کا بیعت نہ کرنا ھٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کر لیتے تو اپنے وجدان سے خیانت کا ارتکاب کرتے اور دین کی مخالفت کرتے کیوں کہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا امام حسین ع حق کے مقابلے میں چشم پوشی کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے آپ تمام امور اسلامی میں انتہائی زیرک اور مدبرانہ فکر رکھتے تھے۔( ۲)

عمر بن عبداللہ فروخ ( لبنان سے تعلق رکھنے والے اہل سنت ادیب و مفکر) کہتے ہیں: ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں ہے اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کے دفاع کرنے کی رہنمائی فرمائے.( ۳)

خواجہ معین الدین چشتی کہتے ہیں : حسین صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک نظریے کا نام ہے ایک اصول ایک نظام حیات کا نام ہے حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے حسینیت دین فطرت اور انسانیت کی اساس ہے (۴)

ڈاکٹر طاہر القادری ( سربراہ منھاج القرآن )

شہادت حسین ع سیرت محمد ص کا ہی ایک باب ہے امت کو جو فیض حضور اکرم ص کی سیرت سے ملتا ہے وہی فیض امام حسین ع کی سیرت سے ملتا ہے ضروری ہے اس بات کو سمجھا جائے کہ ذکر امام حسین ع کیوں ضروری ہے اگر ذکر حسین ع ضروری نہیں اور شہادت حسین ع کا تذکرہ اہل بیت علیہم السلام ضروری نہیں تو آقا کی امت میں کسی کا ذکر ضروری نہیں کیوں کہ ذکر حسین ع حقیقت میں خود ذکر مصطفی ص ہے.( ۵)

غیر مسلم مفکرین کی نگاہ میں:

جارج جرداق ( مسیحی مصنف و شاعر، لبنان)

وہ پیکر غیرت کہ جسے اپنے اہل و عیال کی عزت و ناموس کا اتنا خیال تھا کہ جب میدان میں تن و تنہا رہ گیا تھا اور ہر سمت سے تیر و تلوار سے حملے کیے جا رہے تھے اس وقت نظر پڑی کہ اہل کوفہ خیام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا ہاتھ بلند کر کے فرماتے ہیں " اے آل ابی سفیان کے ماننے والو: اگر تم دین محمدی ص سے بالکل کنارہ کر چکے ہو تب بھی دنیاوی اخلاقیات کا لحاظ رکھو ۶

انتتونی بارا،لبنان کے مشہور عیسائی مصنف

اپنی کتاب Hussain sa in chirstian ideology میں لکھتے ہیں:

میں نہیں مانتا کہ حسین ع صرف شیعوں کا صرف مسلمانوں کے امام ہیں میرا ماننا ہے آپ تمام عالم کے امام ہیں کیوں کہ وہ تمام مذاہب کے ضمیر ہیں امام حسین ع کا انقلاب دنیا کے انقلابات سے عظیم تھا آپ کی شہادت تمام قربانیوں اور شہادتوں کو کامل کرنے والی ہے اگر ہمارے ساتھ حسین ع جیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دیتے لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین ع نہیں۔

برطانیہ کے William Muir نے اپنی کتاب Annals of the Early caliphate , 1883 میں لکھتے ہیں: کربلا کے حادثے نے تاریخِ محمد ص میں خلافت کے خاتمے کے بعد اسلام کو انسانی ذہنوں میں ذندہ رکھا ہے. واقعہ کربلا نے نہ کہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کردیا بلکہ محمدی ریاست کے اصول و معیار بھی متعین کر دیے جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گئے تھے۔

ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی( بھارت کے اولین صدر):

امام حسین ع کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے۔

جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے آپ کو حسین ع کہا جاتا ہے آپ ع حضرت محمد ص کے نواسے حضرت علی و فاطمہ کے بیٹے لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں آپ کے عظیم کردار نے اسلام کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈاک دی حق تو یہ ہے کہ اگر اسلام کے یہ بہادر میدان کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتے تو آج حضرت محمد ص کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا یوم کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نہر آتی۔

چارلس ڈکس ( اسکالر و ناول نگار )

میں نہیں سمجھتا کہ حسین ع کو کوئی دنیاوی لالچ تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو حسین ع اپنا سارا خاندان بچے خواتین دشت کربلا میں نہ لاتے کربلا بچوں خواتین سمیت انا ثابت کرتا ہے کہ حسین ع نے فقط اسلام اور رضائے الٰہی کے لیے قربانی دی۔

امریکی مورخ Ironic Washington لکھتے ہیں: امام حسین ع کے سامنے تسلیم خم ہوکر اپنے آپ کو نجات دلا سکتے ہیں لیکن اسلام کے پیشوا ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری آپ کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ یزید کو خلیفہ کے طور پر قبول کریں آپ نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر قسم کی سختیوں اور مشکلات کو سینے سے لگایا عرب کے خاردار ریتلے صحرا میں تیز دھوپ کے سائے میں حسین ع کی روح کا زوال ہو گئی۔

جرمن دانشور monsieur marbin کہتے ہیں: حسین وہ منفرد شخصیت ہیں جنہوں نے چودہ قرن پہلے ظالم و جابر حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا وہ مورد جسے ہم نادیدہ قرار نہیں دے سکتے وہ یہ ہے کہ حسین وہ سب سے پہلی شخصیت ہیں کہ جن کی مانند آج تک کوئی ایسی موثر ترین سیاست انجام نہ دے سکے۔ ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ بشریت میں کوئی بھی آپ جیسی فداکاری کا نہ آج تک مظاہرہ کر سکا ہے اور نہ کبھی کر سکے گا۔

تھامس کارلائل ( برطانوی مستشرق ):

واقعہ کربلا نے حق و باطل کے مقابلے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ ہم امام حسین ع اور ان کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے قلیل ہونے کے باوجود امام کی فتح متاثر کرتی ہے.(۸)

ان بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ حسین ع ایک فکر ہیں ایک مکتب ہیں آپکے مکتب سے جو فیض یاب ہو جائے یقیناً وہ دنیا و آخرت میں سر خرو ہے آپ کسی ایک خاص مسلک و مذہب کے امام نہیں ہیں بلکہ ہر حریت پسند کے امام ہیں ہر انسان کی جو اپنے وجود میں انسانیت رکھتا ہے آپ اس کے امام ہیں۔

حوالہ جات:

۱. تاریخ ابن خلدون داراحیا، التفات العربی ج ۱،ص ۲۱۷

۲. ڈاکٹر طہٰ حسین، علی و نبوہ، دارالمعارف،ص ۲۳۹

۳. فروخ، تجدید فی المسلمین فی الاسلام دارالکتاب العربی،ص ۱۵۲

۴.https://risalaat. Com رسالات جامعہ الکوثر سلسلہ تبلیغات آفیشل ویب سائٹ

۵. تحریک منھاج القرآن ویب سائٹ، www. Minhag. Org

۶. العتبہ الحسینیہ المقدسہ www imamhussain. Org

۷. ایم ایس شاہ، ارٹیکل، اسلام ٹائمز آفیشل ویب سائٹ

۸۔رسالات جامعتہ الکوثر سلسلہ تبلیغات آفیشل ویب سائٹ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .