تحریر: عارف بلتستانی
حوزه نیوز ایجنسی| کربلا انسان سازی اور معارف اہلبیت علیہم السّلام کو بشریت تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ دشمن بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اس سے غلط مطلب نکال کر جوانوں کو ہمیشہ شبہات کے گرداب میں پھنسا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ کوئی بھی جوان صحیح معنوں میں حریت کی طرف نہ آ سکے۔آزادی کا مطالبہ نہ کر سکے۔عدالت کا مطالبہ نہ کر سکے۔ حقیقت کے متلاشی نہ بن سکے۔ اس نفسا نفسی اور مفاد پرستی کے پرآشوب دور میں فکری و تاریخی تحریف اور اخلاقی زوال ایک اہم مسئلہ ہے۔ جس کی خاطر دشمن، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کر رہا ہے، تاکہ آج کے جوان کربلا (حقیقی آزادی) کے چشمے کی طرف نگاہ نہ کرسکیں۔ اس فکری تحریف سے بچنے کے لئے "جہاد تبیین" کی ضرورت ہے۔
جہاد تبیین صحیح و مستند تاریخی کتابوں سے ہی ممکن ہے۔ کتابوں کے قرطاس پر تحریر شدہ حروف ہی انسان کو آب زلال تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ کتابوں کی آخری صدی ہے، لیکن پھر بھی اہل علم کا کتابوں سے درینہ عشق ابھی بھی موجود ہے۔ کربلا اور مقتل شناسی کے حوالے سے ابن طاؤوس کی کتاب "مقتل لہوف" بہترین اور مستند ترین کتاب ہے۔ جوانوں کو ایک دفعہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے۔ جس کے بارے میں بزرگ علماء اپنی آراء کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔
شیخ جعفر شوشتری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛ "جان لو کہ مرثیوں کی نقل کے حوالے سے اس سے زیادہ معتبر کوئی کتاب نہیں ہے؛ جلالت قدر کے لحاظ سے اس کے مؤلف سید ابن طاؤوس جیسی شخصیات کم ہیں۔ شہيد محراب، آیت اللہ محمد علی قاضی طباطبائی فرماتے ہیں کہ سید ابن طاؤوس کی منقولہ روایات بہت زيادہ قابل اعتماد ہیں؛ کتب مقاتل میں کوئی بھی کتاب اعتبار و اطمینان کے لحاظ سے ان کی کتاب (اللہوف) کے پائے تک نہیں پہنچتی۔"
رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ لعظمیٰ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں؛ "یہ بہت معتبر مقتل ہے، اس کے مؤلف فقیہ، عارف، بزرگ، بہت سچے، موثق اور سب کے نزدیک قابل احترام ہیں۔ خود ادیب اور شاعر ہیں؛ اللھوف سے پہلے بھی مقاتل تھے؛ ان کے استاد شیخ نجم الدین جعفر بن نما، المعروف بہ ابن نما کا بھی مقتل ہے، شیخ طوسی نے بھی مقتل لکھا ہے، دوسروں نے بھی مقتل لکھے ہیں، لیکن اللھوف کے آنے کے بعد دوسرے مقاتل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے؛ یہ بہت اچھا مقتل ہے۔ اس کی عبارات بہت اچھی، دقیق اور مختصر ہیں۔"
استاد علی دوانی لکھتے ہیں؛ "لھوف یا ملھوف فی قتلی الطفوف ایک مختصر سی کتاب ہے، جس کے مؤلف سید رضي الدین علی بن طاؤوس حلی ہیں۔ گویا انہوں نے یہ کتاب ایام شباب میں لکھی ہے؛ اس کے باوجود یہ بہت اہم مآخذ اور معتبر مقاتل میں سے ایک ہے۔ آیئے ہم بھی ایک دفعہ معرفت کی نگاہ سے اس عظیم اور مستند کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔"
بہر کیف ماہ محرم میں روایتی مجلس و عزاداری، منتوں، آرزوں اور تمناؤں کو ایک طرف رکھ کر جب عٙلم مولا عباسؑ کو چومو تو قربتِ الہی، معرفتِ امام حسینؑ مانگو اور امام زمانہ (عج) کے لیے سپاہی بننے کی دعا کریں، جب ماتم کے لئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھیں تو اپنی روح کی پاکیزگی مانگیں! یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں کربلا و عاشورا کی معرفت حاصل ہو جائے۔ معرفت بغیر جستجو، بغیر تحقیق ، بغیر مطالعہ ممکن نہیں ہے، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریخ کا تجزیاتی، تحلیلی اور تحقیقی مطالعہ کریں اور کتابوں کی طرف رجوع کریں، کیونکہ کتاب خوانی کامیاب ترین انسانوں کا مشغلہ ہے۔ کتاب و قلم صرف نوکر بننے کا وسیلہ نہیں، بلکہ انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچانے کا بہترین استاد بھی ہے۔ کتاب ھادی بھی منجی بھی، محسن بھی احسان بھی، علم بھی عمل بھی، شعور بھی آگہی بھی، راہ بھی راہگیر بھی، عہد بھی میثاق بھی، عزم بھی بزم بھی، رسم بھی رزم بھی، مشغلہ بھی وسیلہ بھی، رہبر بھی رہنما بھی، معمار بھی ہے۔ آیا ہم کتابوں کو اس نگاہ سے دیکھتے یا پڑھتے ہیں؟