تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | فاطمتہ الزہراؑ کی عظمت و فضیلت کو فہم و فراست کے لیے چند قرآنی محکم آیات کا تذکرہ مفید ولازم ہے۔ غفار و قدوس اپنی اُم الکتاب، قرآن حکیم کا سورۃ مجادلہ کی آیت نمبر گیارہ (11) میں ارشاد فرما رہاہے کہ "جن کو علم عطا ہوا ان کا مقام بلند ہے۔" قرآن ہدیٰ و عظیم کا سورۃ بینہ کی آیت نمبر سات (7) میں صراحت سے ذکر ہو رہا ہے کہ "اور نیک اعمال انجام دیتے وہی کائنات میں بہترین لوگ ہیں۔" قرآن برہان کا سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 282 کا تدبر اور تفکر سے مطالعہ کرنے سے ذہن روشن ہوگا کہ حاکم و خالق کائنات کے سامنے علم کی کیا اہمیت و فضیلت ہے کہ "خدا کا تقویٰ اختیار کرو خدا تمہیں خود تعلیم دےگا۔" زوجۂ شیرٍ خدا، شاہ مرداں، شیر یزداں حضرت علیؑ کا قول ہے کہ "جو اپنے علم کے لحاظ سے عمل کرتا ہے خدا اس کو وہ چیزیں سکھا دیتا ہے جو وہ نہیں جانتا ہے۔" علم سے "مقام بلند" اور نیک اعمال سے "بہترین لوگ" قرار پائے اور تقویٰ اختیار کیا تو اللہ تبارک و تعالٰی خود تعلیم دے گا۔ یہ مختصر سی نصیحت قرآن کریم کی تلاوت سے میسر ہوتی ہے اور عمل میں لانے کے لیے سیدہ فاطمہؑ کی حیات طیبہ جسم اور روح کی مانند ہے۔
سیدۃ النساء العالمین فضائل و مناقب کے بیکراں سمندر ہے کیونکہ امام زمان حضرت مہدی عجل اللہ فرجک الشریف کی نصیحت ہے:"پیغمبر خدا کی دختر فرزانہ کی زندگی میرے لیے درخشندہ اُسوۂ حسنہ ہے۔" اگر امامؑ کا قول ایسا ہے تو پھر وہ کائنات کے لیے اُسوۂ حسنہ کیوں نہ ہوں؟ کیونکہ آپؑ مظہر جامعیت کمال، اوج عرفان، قرطاس معرفت و آگہی، سمبل اخلاس ایمان، صبر و شکیبائی کا کوہٍ گراں، مرکز مہر و ہدایت، ستون دین و ایماں، نفس و نفیس محمد عربیؐ، بوستانٍ رسالت کا شجر ثمر دار، کوثر قرآن، ہم راز صاحب وحی، بانوئے شہسوار اسلام، رہبرانٍ حریت و حقوق بشر کی ماں، مظہر جلال الٰہی، مظہر جمال رسول اللہ اور دانش و بینش کا بیکراں سمندر ہیں۔
تیری فضہؑ کو ابھی تک نہیں سمجھا کوئی اے میری شہزادی
کیسے دنیا کو سمجھ آئے گا رتبہ تیرا
افضل النساء کے فضائل و مناقب سیدالانبیا کی زبان پاک سے ادا ہوئے اور قرآن کریم کی آیتوں حل اتٰی، مباہلہ، سورۃ احزاب کی آیت نمبر 33، سورۃ کوثر پر تفکر کرنے سے فاطمہؑ کی بلندیوں کا پتہ چلتا ہے اور حقیقتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ بخاری شریف، جلد اول، ص 532 کی زینت بنی ہوئی ہے کی "فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے غضبناک کیا۔"
سیدہ کائنات کی عظمت و فضائل سمندر کی مانند ہیں جس میں سے چند قطروں کا تذکرہ چند سطروں کے ذریعے راقم اپنی محدود علم سے تحریر کر رہا ہے اور امام زمانہؑ سے دعا ہے کہ اس تحریر کو قبولیت کا شرف حاصل ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہؑ فرماتی ہیں کہ "میں نے رسول اکرمؑ کی صاحبزادی فاطمہؑ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا کہ کوئی عادات، سیرت، وقار اور اُٹھنے بیٹھنے میں نبی اکرمؐ کے مشابہ تھیں۔" جامع الترمذی، جلد 2، ص 226
شاعر اہلبیت، ڈاکٹر محمد اقبال فضیلت و عظمت فاطمہؑ کے سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں:
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت، حضرت زہراؑ عزیز
حضرت مریم، حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ ہونے کی وجہ سے عزیز ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے صورت نفس کلی، رشک آسیہ و نظیرالبشر ماؤں کے لیے کامل نمونہ اپنے ابدی شعر میں قرار دیا ہے:
مزع تسلیم را حاصل بتول
مادراں و اسوۂ کامل بتول
آج خواتین کے سامنے حضرت فاطمہؑ کی فیوض و برکات ہیں، ان کی صفات عالیہ موجود ہیں۔ انہیں نقش پر عمل پیراں ہو کر اپنی نسلوں کو با برکت بنانے کے لیے جوشٍ تبلیغ، ولولۂ توحید، حکمت، بیداری، ایثار، عبادت، زہد، تقویٰ، رفاقت حق، عفت، جانفشانی پر چلنے کے لیے خواتین نیک ارادہ سے عمل کرنے کے لیے اپنی نسلوں کو آمادہ کریں۔
اصلاح معاشرہ ہو یا نسل، اس کے لیے عمل میں خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ عورت ماں ہے اور ماں کی گود میں ہر معاشرے کی نئی نسل پیدا ہوتی ہے اور اس کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہے۔ ماں اپنی تربیت سے نسل نو کو کردار اور عمل کا ایسا نمونہ بناسکتی ہے جو انسانیت کے لیے باعثٍ فخر و افتخار ہو سکتی ہے۔ عورتوں کی کوشش اور سنجیدہ توجہ شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔
غیر انسانی، ایمانی اور اسلامی صورت حال کی وجہ جیسے کسی بھی قیمت پر کامیابی، ضمیر کی پستی، ایمان فروشی، وارثٍ رسول کی حقیقت سے کنارہ کشی، منبروں سے ذاتی فوائد اور تشہیر، امامٍ محراب کا لوگوں کی عبادت اور ایمان سے لافکری، مبلغین میں قرآنی آیات، تفاسیر و فقہی علم کا فقدان، فلسفہ سے نابلد، عصری علم سے ناآشنائی اور تحریری صلاحیت کا فقدان وغیرہ ہیں۔ ان سب صورتحال کے باوجود اگر خواتین مصمم ارادوں کا عہد کر لیں اور اپنی لیاقت، صلاحیت، ادراک، علم و دانش، معرفت و عقل، محنت و مشقت اور بیش قیمتی تجربوں کا پوری توانائی اور جذبوں سے نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت کریں اور بچوں کے سامنے کردار ساجدہ، ماجدہ، زاہدہ، عالمہ، صدیقہ، طاہرہ، کوکب دُری، خیرالنسا ٕ حضرت فاطمہؑ کو اپنا آئیڈیل مان کر اپنی نسل کو ایسا سنوار دیں کہ لوگ بے ساختہ کہیں: "واہ! ماشاءاللہ! سبحان اللہ! کیا کہنا!"۔ بیشک ان خواتین کے نام قصیدہ خوانی ہوگی۔ضرور ہوگی۔
راقم الحروف قارئین کو متوجہ کرنے کا خواہش رکھتا ہے کہ والدین اپنی دختران کو قرآن، حدیث، ہنر، کمپیوٹر اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ ضرور کریں لیکن اس تعلیم کے ساتھ لڑکیوں کو مکمل عمل سے بھی مزین کریں اور اسے اپنا اول و اہم فریضہ سمجھیں کیونکہ بچوں کی پرورش میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے۔ تمام کامیاب شخصیات کے پیچھے ماں کا کردار ہوتا ہے۔ یہ اظہرالمنشمس ہے کہ انبیاء، آئمہ، اولیاء، اوصیا ٕ، مراجع، آیتہ اللہ، عالم، دانشور، سائنسداں، فلسفی اور مفکر وغیرہ ماؤں کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ماں کسب کمال کی فکر و جذبہ کو استوار کریں، ارادہ و ادراک پیداں کریں اور اپنے پیروں تلے جنت کے لفظ میں معرفت سے روح ڈالیں، فخر کریں، محنت و مشقت کرکے دنیا میں آشکار و عیاں کر کے حقیقت ثابت کریں کہ واقعی ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔
آج موجودہ جدیدی دور میں بھی خواتین کو ایسی شخصیت پُر نور، باعظمت و فضیلت کی حامل کردار کی تلاش ہے جو عورتوں کی توجہ، محبت و عظمت کی مرکز ہو۔ یہ علامتی تحریر ضروری ہے۔ نابُل انعام یافتہ، فلسفی، شاعر ربندر ناتھ ٹیگور نے اقرار کیا ہے، نمونۂ عمل کے لیے شخصی زندگی اور عملی سیرت لازمی ہے۔ اسلامی زندگی کی کامیابی کی وجہ ہے شخصی زندگی اور عملی سیرت۔ حضرت سیدہ فاطمہؑ دونوں ہی کار رسالت کی روح اور جسم ہیں۔ شخصی زندگی اور عملی سیرت میں کامل نمونۂ عمل ہیں۔
وہ نور تیرا جس سے منور دل و دماغ
تجھ سے ملا ہے عظمت نسواں کا سراغ
سر سبز تجھ سے دینٍ رسول خدا کا باغ
روشن تمہارے نور سے گیارہ ہوئے چراغ
شہزادی تجھ سے خلق وہ پُر نور ہو گیا
سارا جہاں نور سے معمور ہو گیا
حضرت فاطمہؑ اپنے بچوں کی روحانی نشو و نما کے لیے ان کے ساتھ کھیلتیں اور مزاح فرمایا کرتی تھیں۔ آپ بچوں کی روحانی و جسمانی تربیت کے لیے اشعار کہتیں، سبھی مائیں ذہن نشیں کریں کہ اولادوں کی تربیت کے لیے ان کی فکر کیسی تھی؟ انہوں نے عربی زبان میں اشعار کہا ہے جس کا اُردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
میرے بچے یاد رکھنا اپنی ماں کی بات کو
اپنے بابا کا عمل رکھنا سدا پیش نظر
یہ نہ ہرگز بھولنا بخشندۂ نعمت ہے رب
شکر سے اس کے کبھی غافل نہ ہونا اے پسر!
دور ہی رہنا فساد و فتنہ سے اے میری جاں!
دوستی رکھنا نہ ہرگز اہل شر سے عمر بھر
خواتین حضرات امور خانہ کے لیے خادمہ رکھتی ہیں۔ وہ اس واقعہ سے سبق حاصل کر سکتی ہیں کہ خاتون جنت کا جنہوں نے اپنی متکلمہ کنیز کے ساتھ امور خانہ کی انجام دہی کے لیے کام تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک روز خود گھر کا کام کرتی تھیں۔ سلمان فارسی رح چشم دید گواہ ہیں کہ آپ نے کام کے دنوں کو برابر تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک روز خود گھر کا کام کرتی تھیں جبکہ دوسرے روز فضہؑ گھر کا کام کیا کرتی تھیں۔ آٹا چکی چلاتے چلاتے ہاتھ زخمی تھا، جبکہ آرام طلب نہ کی، حسب وعدہ اپنے معینہ روز کا کام انجام دیتی رہیں۔
جلیلہ، جمیلہ حضرت فاطمہ زہراؑ جنگ میں شرکت کرتی تھیں۔ جنگ خندق میں مدینہ منورہ دشمنوں کے محاصرے میں تھا۔ شیر خدا کی شریک حیات، مادر کریمین حضرت زہراؑ بھی روٹیاں پکا کر محاذ جنگ کے مجاہدین کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کر رہی تھیں۔ جنگ اُحد کا دردناک، غمناک اور افسوس ناک واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ میدان میں صحابہ کرام سرکار دو عالمؐ کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ آپ ٹوٹے ہوئے دانتوں کے ساتھ خون میں لت پت پڑے تھے۔ اس نازک گھڑی میں جب فاطمہؑ کو اپنے پدر بزرگوار کے زخمی ہونے کی خبر ملی تو وہ بغیر کسی تاخیر کے میدان جنگ میں پہچ گئیں۔ انہوں نے ماں کی طرح تیمارداری اور دیکھ بھال کی۔
حکمرانوں نے جاگیر فدک غصب کر کے ایک عظیم اقتصادی معاون سے محروم کرنا چاہا۔ شمع شمع سے جلے یعنی خطبہ سے خطبہ جلے، حضرت فاطمہ زہراؑ کے خطبے لگ بھگ ایک گھنٹہ ساعت کے تھے۔ اس خطبے کو لمتہ بھی کہا جاتا ہے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں اپنے حقوق کی غاصبوں سے مانگ کی اور تاریخ ساز جملہ کہا: "ہدایت یافتہ ہی ہدایت کر سکتے ہیں۔ جنہیں ہدایت کی ضرورت ہے وہ ہدایت کیا کریں گے۔" اس امر پر خواتین حضرات غور کریں کہ حضرت فاطمہؑ اپنے والد گرامی کی عماری پر سوار ہوتیں اور کئی شب تک انصار و مہاجرین کے گھر تشریف لے جاتیں اور ان کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی دعوت دیتی رہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے من کنت مولا پر عمل پیراں ہوں۔ یہ بھی روشناس کرانا ہے کہ آج کی زوجہ اپنے شوہر کے حقوق کا پامال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ خاتون جنت کا کوئی بھی قدم بغیر مصلحت کے کیسے ہو سکتا تھا؟ یقینی طور پر دختر رسولؐ کا گریہ اپنے باپ کی امت کو ہوشیار و بیدار کرنے کی غرض سے تھا۔ جب حضرت فاطمہؐ سخت علیل ہوئیں تو خواتین مدینہ آپ کی عیادت کے لیے آئیں تو اس موقع پر بھی زہراؑ نے بہترین خطبہ دیا۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کم عمر تھیں لیکن سایہ وحی کی پروردہ تھیں ان کی استقامت نے دشمن کی صفوں میں بھی بہت زیادہ اضطراب پیدا کر دیا تھا اور ان کی تمام شازشوں کو بے نقاب کر دیا تھا۔ اہل حق تک حقیقت کا پیغام پہنچایا اور حکمرانوں کے مقابلے میں بڑی شجاعانہ آرائی کر کے اہل حق کو قیامت تک کے لیے مفاد پرستوں پر غلبہ عطا کر دیا۔
حضرت فاطمہ زہراؑ فرماتی ہیں "مجھ پر ایسی مصیبتیں آئیں کہ اگر وہ مصیبتیں دنوں پر آتی تو وہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ (بحار الانوار، جلد 79، صفحہ 105)
کیا اجر رسالت یہ محمدؐ کو ملا ہے
اُس گھر کو جلا ڈالا جہاں دین پلا ہے۔