۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
News ID: 391890
1 جولائی 2024 - 12:47
مباهله

حوزہ/ نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے (دعوت اسلام) کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ اور بالخصوص ان‌ کی صداقت بر دلالت کرتا ہے۔

تحریر: مولانا سید حسین عباس عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | اس عالم ہستی میں مختلف ادیان و فرق کے ماننے والے زندگی بسر کرتے ہیں اور کیونکہ انسانی زندگی میں مذہب اور عقیدہ کا بڑا دخل ہے لہذا ہر انسان کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ نظر آتا ہے اور اگر وہ کسی مذہب سے سروکار نہ بھی رکھتا ہو تو یقینا کسی نہ کسی مخصوص عقیدہ پر عمل پیرا رہتا ہے ۔ مذہب اور عقیدہ سے وابستگی انسانی فطرت میں شامل ہے اور اس کے بغیر زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا۔ اور ہر کوئی اپنے مذہب کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہب اور عقیدے کو صحیح اور حق جانتا ہے اور اس پر ڈٹا رہتا ہے اور بسا اوقات وہ اپنی فکر میں دوسروں کے مذہب کو غلط اور باطل سمجھتا ہے لیکن اس کے لئے اس تصور کی حقیقت اس وقت روشن ہوتی ہے جب وہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے اپنے مذہب کی بنیاد پر مناظرہ کرتا ہے اور جس انسان کے پاس اپنی اور اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے مضبوط دلائل و برہان موجود ہو تو وہ کبھی بھی کسی بھی مذہب کے ماننے والے اور اس کے عالموں سے مناظرہ یا مذہبی امور پر بات چیت کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتا اور ہمیشہ اس کے لئے تیار رہتا ہے لیکن اگر کسی بھی موضوع میں بحث و مباحثہ میں مستحکم و محکم دلیلیں پیش کرنے کے با وجود بھی جب مد مقابل نہ مانے اور اپنی غلط ضد و غلط عقیدہ پر اڑا رہے تو بظاہر سوائے مباہلہ کے آدمی کے پاس اور کیا راستہ رہ جاتا ہے ۔ تاریخ اسلام میں بھی فتح مکہ کے بعد اسلام کے غلبے کا دور شروع ہوا اور اسلام نے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنا شروع کیا۔ چنانچہ ہرقل روم، کسرائے ایران وغیرہ اور شاہ یمن و شاہ حبشہ تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی۔ نجران کے مسیحی ان حالات سے نہایت پریشان تھے کہ اسی بیچ پیغمبر اکرم (صلی االله علیہ و آله و سلم) نے نجران کے عیسائیوں کے لئے ایک فرمان بھیجا، اور جس میں یہ چیزیں بیان فرمائی کہ یا اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو تو عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے اپنے کچھ افراد پر مشتمل ایک جماعت حضور اکرم کی خدمت میں بھیجی۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی اور ان سے متعدد مناظرے اور بحث و مباحثہ ہوئے جس میں اہل نجران کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا، دلیل و برہان اور قطعی و یقینی دلیل قائم ہونے کے بعد بھی اگر نصارائے نجران جان بوجھ کر اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہیں تو نجران کے وفد کے عقیدے کو باطل ثابت کرنے اور ان کے مذہب کی قلعی کھولنے کا واحد حل یہ ہے کہ مباہلہ اور ملاعنہ کر کے جھوٹوں پر عذاب کے نزول کی دعا کی جائے۔ پس وہ دعا کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں اسلام کی حقانیت اور نصرانیت کی گمراہی ثابت ہو جائے گی۔ اسی وقت حضور پر وحی نازل ہوئی ۔
فمن حآجک فیہ من بعد ما جآءک من العلم فقل تعالوا ندع ابنآءنا و ابنآءکم و نسآءنا و نسآءکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنت اللّٰه علی الکذبین {۱}
ترجمہ : آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی عورتوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق الله سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر الله کی لعنت ہو۔
مندرجہ ذیل بالا آیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اپنے حبیب کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو ۔
ویسے تو مباہلہ کے معنی ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بند کو ختم کردینا کے ہے ۔ دعا میں {ابتھال} تضرع و زاری اور کام خدا کے سپرد کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ کبھی ہلاکت، لعنت اور خدا سے دوری کے معنی میں آتا ہے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائے اور بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔{۲}
ادھر آیت کا نزول اور اس کا ابلاغ ہوا ادھر امت آپس میں قیاس آرائیاں کرتی رہی کہ رسول خدا ابنآءنا، نسآءنا اور انفسنا میں کن کن ہستیوں کو شامل کریں گے؟
پیغمبر اکرم (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)، حسنین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر نکلے۔ پیچھے حضرت فاطمہ سلام الله علیھا اور ان کے پیچھے علی علیہ السلام تھے ‌۔
اگرچہ ابنآءنا، نسآءنا اور انفسنا میں جمع ہونے اور مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت تھی کہ حضور اصحاب و انصار بلکہ خود بنی ہاشم کے بہت سے بچوں، جلیل القدر خواتین اور بہت سی قد آور شخصیات کو ان تینوں (ابنآءنا، نسآءنا اور انفسنا) کے تحت اس تاریخ ساز مباہلے میں شریک فرماتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور صرف حسنین علیہما السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا اور حضرت علی علیہ السلام کو شامل فرمایا۔ کیونکہ یہاں بات صرف جھوٹوں پر لعنت کرنے کی نہیں تھی بلکہ غور کیا جائے تو اسی مباہلہ میں سچوں کی پہچان کا مرحلہ بھی حل کرنا تھا کیونکہ علی الکذبین سے ظاہر ہوتا ہے کہ مباہلے کے فریقین اپنا اپنا دعویٰ رکھتے ہیں، جس میں ایک فریق صادق اور دوسرا کاذب ہوگا۔ اور پھر ان کا مباہلہ نہ کرنا اور مسیحیوں کے سردار کا یہ کہہ کر واپس چلے جانا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ الله سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ہٹ جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤنگے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور صادق و سچا نہ ہو وہ ایک ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آؤ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں، اس خدا سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم جیسی شخصیت نتیجے کے متعلق اطمینان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے اور اپنے ساتھ اپنے جیسے افراد کو لے جائے لہذا پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر، آپ کی اور کے ساتھ مباہلہ میں شامل افراد کی اور آپ کی دعوت کی صداقت، حقانیت اور ایمان قاطع کی دلیل ہے ۔
نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے (دعوت اسلام) کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ اور بالخصوص ان‌ کی صداقت بر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ (ص) نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین اور صادق ترین افراد کو مباہلے کے لیے منتخب کر کے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے ۔
مذکورہ آیت، اس کی شان نزول اور اس کی تفسیر میں واقعہ مباہلہ سے پنجتن پاک کی بہت سی فضیلتیں واضح اور آشکار ہوتی ہیں جنھیں بیان کرنا اس مختصر سے مقالے میں ممکن نہیں ہے، بالخصوص یہ آیت ہمیں سچوں اور ان کی پہچان کراتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ۔ آل عمران / ۶۱
۲ ۔ حاشیہ برگزیدہ تفسیر نمونہ (آیۃ الله مکارم)، تحقیق و تنظیم احمد علی بابائی، ج ۱، ص ۲۹۰، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۳۷۶ ش ھ، چاپ سوم،

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .