حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/قرآن وعترت فاونڈیشن ایک ایساعلمی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں ہمیشہ معنوی غذا پہوچانے کی انتھک کوشش کیا کرتا ہے،۱۴سال غدیر عنوان سے درسی،غیر درسی تالیف و ترجمہ،تاسیس حوزہ خواہران و برادران،مختلف مناسبتوں پرپورے سال بطور مختصر پروگرام کاانعقاد،سال میں دسویوں کانفرنس،وغیرہ۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمدرضوی بانی قرآن وعترت فاونڈیشن جنہوں نے ٢٥سال سے علمی مرکز قم ایران سے دنیابھرمیں اپنی خاص مدیریت کی بناء پر بے پناہ علمی مطالب پہوچانے کی کوشش کی اوردن کودن نہ سمجھا اورنہ ہی رات کورات،،،لکھنئوویشال سیٹی میں اسی طرح آج اسی ادارے کی جانب سے عید مباہلہ کاپروگرام رکھاگیاجسکےکنوینرمنظررضااوراس پروگرام کے ناظم سلمان صاحب تھے،اور مصرعہ،قرآن گواہ مرکز عصمت بتول ہیں۔
اس پروگرام میں چند حضرات نے دیئے گئے مصرعہ پر اشعار پیش کئے اور افتتاحی تقریر حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید صبیح الحسن صاحب قبلہ وکعبہ اور افتتاحی تقریر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سبط حیدر سمند پوری کی، مولاناموصوف نے کہا کہ کیا مباہلہ کے لیے کسی شرط کا ہونا ضروری ہے کہ کسی کے ساتھھ مباہلہ انجام پائے ، یا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کر سکتا ہے ؟ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے ؟ کیا تاریخ اسلام میں یقینا مباہلہ وا قع ہوا ہے ؟ ؟جواب یہ ہے کہ ہاں ایساکرسکتا ہے لیکن یہ کہ مباہلہ کرنے والا اپنے آپ کی تین دن تک اخلاقی اصلاح کرے، روزہ رکھے اور غسل کرے یعنی(الف)جوشخص مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ تین دن تک اپنے آپ کی اصلاح کرے،(ب)روزہ رکھے(ج)غسل کرے،(د)جس کے ساتھ مباہلہ کرنا چاہتا ہے اس کے ہمراہ صحرا میں جائے۔(ھ)مباہلہ انجام پانے کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے،(و)اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو مد مقابل کے دائیں ہاتھ کی انگیوں میں ڈال دے،(ز)مباہلہ شروع کرتے ہوئے کہے: خداوندا !تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے واقف ہے اور رحمان و رحیم ہے اگر میرے مد مقابل نے کسی حق سے انکار کیا ہو اور باطل دعوی کر رہا ہو تو آسمان سے اس پر ایک بلا نازل کرنا اور اسے درد ناک عذاب سے دوچار کرنا !اس کے بعد دوبارہ اسی دعا کو دہرائے اور کہے: اگر وہ شخص حق سے انکار کر کے باطل کا دعوی کر رہا ہے تو اس پر آسمان سے ایک بلا نازل کر کے۔
مباہلہ عنوان پر ایک نظر:
اسکے لغوی معنی: ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں،ایک قرآنی اوراصطلاحی معنی، دو لوگوں یا گروہوں کی خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے خداوند سے ایک دوسرے کے خلاف بد دعا کرنا۔ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج، ص تا لکھتے ہیں کہ:دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پو ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔آیت مباہلہ:سور آل عمران کی آیت ویں آیت کومفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں،کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔فمن حآج فِیہِ مِن بعدِ ما جا مِن العِلمِ فقل تعالوا ندع بنانا وبنام ونِسانا ونِسام ونفسنا ونفسم ثم نبتہِل فنجعل لعن اللہِ عل الاذِبِین یعنی !چنانچہ اب آپ کو علم اور وحی پہنچنے کے بعد، جو بھی اس حضرت عیسی )کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں،اوراپنے نفسوں کولاوہم اپنے نفسوں کولاتے ہیں پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں
جھوٹوں پر۔ مباہلہ پر تاریخ نظر:
مباہلہایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اورتفسیرابن کثیرمیں تفصیل سے لکھاگیاہی محمدننجرانکے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو، یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جا۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور ص کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسی کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہیاس آیت کے نزول کے بعد حضرت محمد(ص)اپنی بیٹی اپنے داماد،اپنے نواسوں کوگھرسے لیکر میدان کی طرف نکلیسورہ انعام دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اور اکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔
دعوت مباہلہ کے سلسلے سے :
مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسی کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے آئیں اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاو پھر دعا کرو تا کہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے ۔کیسے مباہلہ کی یہ صورت شاید اس سے پہلے عرب میں رواج نہیں تھا اوریہی وہ راستہ ہے جوایمان کی دعوت دیتاہےممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کواکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے، کیونکہ اگر دعوت دینے والےکی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا ،اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم ص کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔مباہلہ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرمکے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کر لیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی بارے میں بتاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شور و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور و غل کا سہارا لیا جائے، اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے مباہلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے۔
عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر(ص)اپنے بیٹے حسین کو گود میں لیے حسن وحسین کا ہاتھ پکڑے اور علی(ع)و فاطمہ (ع) کو ہمراہ لیے آ پہنچے ہیں اور انہیں فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو، تم آمین کہنا ۔عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔پیغمبر اسلام (ص)نے نجران کے نصاری کو مباہلہ کی تجویز دی اور انھوں نے یہ تجویز قبول کر لی، لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلہ کرنے سے اجتناب کیا، کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر(ص)اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی : فاطمہ زہرا (س)،کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انہیں آپ (ص)کی صداقت کا یقین ہوا، اور یوں رسول اللہ(ص)اس مباہلے میں کامیاب ہوئے۔نجران کے نصاری اور رسول خدا (ص)کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم(ص)کے اصل دعوے [ یعنی دعوت اسلام ] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص)کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ (ص)نے تمام اصحاب اور اعزا و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لیے منتخب کر کے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہیروز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم(ص)امیر الممنین علی کے گھر تشریف فرما ہوئے، امام حسن کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین کو گود میں اٹھایا اور حضرت امیر اور حضرت فاطمہ(س)کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔جب نصارا نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابو حارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد(ص)کے ساتھ آئے ہیں ؟ جواب ملا کہ:وہ جو ان کے آگے آگے آ رہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں، وہ دو دو بچے ان کے فرزند ہیں، ان کی بیٹی سے اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو خلق خدا میں ان کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔آنحضرت (ص) مباہلے کے لیے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب ( جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے ) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لیے روانہ ہوئے۔ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم ! محمد (ص)کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیا مباہلے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔روایت میں بیان ہوا ہے کہ: ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بیشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہو جا گے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت(ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:اے ابالقاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جو ہم ادا کر سکیں۔ چنانچہ آنحضرت (ص)نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت درہم ہونی چاہیے، نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں زرہیں، نیزے، گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا دینا پڑیں گے اور آپ(ص)خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرت (ص)نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔اسکے بعد رسولخدا(ص) نے فرمایا!اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتیتویقینا سب بندروں اورخنزیرون میں بدل کرمسخ ہوجاتے اوربے شک یہ ہوری وادی انکے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اورحتی ان درختوں کے اوپرکوئی پرندہ نہیں رہتااورتمام عیسائی ایک عرصے میں ہلاک ہوجاتے ،نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہ (ص)کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے۔