تحریر: مولانا گلزار جعفری،بانی ادارہ حبل المتین لکھنؤ
حوزہ نیوز ایجنسی | مباہلہ صداقت کی فتح اور جھوٹ کی شکست کا دن ہے ملک عزیز کی موجودہ فضا میں اسے بڑی شان و شوکت سے مناتے ہوئے۔ صداقت کی سرمدیت لا زوالیت اور جھوٹ کے فریب اسکی شکست اور ناکامی کی کہانی کو بیان و قلم کی مکمل توانائی سے اظہار و اعلان کرنا چاہیئے۔ جھوٹوں پر مسلسل نفرین و لعنت کرتے ہویے سچائی کے دامن کو تھامنے کی وصیت و نصیحت ہر ایک پر لازم و ضروری ہے۔
عصر رواں میں جس طرح سے چینلوں پر جھوٹ پروسا جا رہا ملمع کاری کے ذریعہ حقایق کو روندا جا رہا ہے اقدار انسانی پایمال کیے جا رہے ہیں فرقہ وارانہ فساد کی راہیں دیکھاءی جا رہی ہیں ظلم کو عدل عیب کو حسن جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا لباس پہنایا جا رہا ہے دولت و شہرت کے حصول کے لیے ضمیر فروشی عام کی جا رہی ہے طاغوت کے آغوش میں بیٹھ کر سچائی کا مزاق اڑایا جا رہا ہے کذب بیانی کا زہر معاشرہ میں گھولا جا رہا ہے اسکا علاج صرف صداقت کا تریاق ہے اور کچھ نہیں اس لیے کہ ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ نظر آرہا ہے۔
- سیاست میں جھوٹ
- تجارت میں جھوٹ
- صحافت میں جھوٹ
- وزارت میں جھوٹ
- قضاوت میں جھوٹ
- عدالت میں جھوٹ
- قرابت میں جھوٹ
- روایات میں جھوٹ
- عنایات میں دیکھاہے کا جھوٹ
- سخاوت میں ریا کاری کا جھوٹ
- شجاعت میں خود پسندی کا جھوٹ
- درسیات میں عجب پسندی کا جھوٹ
- مملکت میں دھاندلی کا جھوٹ
- مسیحائی ڈاکٹری میں لوٹ مار کا جھوٹ
دینی اداروں میں بھی اشتباہ خوردنی کا سفید جھوٹ جب ہر طرف سماج میں جھوٹ کا بول بالا ہو تو مباہلہ کا جشن پوری شدت سے منا کر صداقت کے شفاف چہروں کو دیکھانا ضروری ہے یہ فقط عید ہی نہیں ہے ایک عہد و پیمان بھی ہے جو اس عہد نو کا متقاضی ہے۔
اس جنگ میں لڑائی اسلحوں کی نہیں تھی کرداروں کی تھی اور عصر حاضر میں بھی یہی لڑائی ہے جہاں اسلحوں سے کہیں زیادہ اصلاح معاشرہ کے لیے کردار سازی کی ضرورت ہے تربیت نفس کی ضرورت ہے اور یہ تہذیب منزل تکمیل کو تبھی پہونچے گی جب ہرطرف صدق و صفا کا راج ہوگا تبھی بشریت کو معراج ہوگی جھوٹ اور فریب کی سزا لعنت ہے اور لعنت رحمت الٰہی سے دوری کا نام ہے اسلحوں کے زخم جسموں پر لگتے ہیں اور مندمل ہو جاتے ہیں مگر لعنت کے زخم نسلوں تک میں منتقل ہو جاتے ہیں اور کوئی سبیل اندمال نہیں ہوتی اس دور کی عیساءیت نے اس عذاب سے بچنے کے لیے مباہلہ قبول نہیں کیا اور جزیہ دیکر ابدی لعنت سے ظاہرا بچ گیے مگر کذب بیانی کے طوق گراں بار کو حمایل کیے رہے اور شکت فاش تسلیم کر لی اور آیت مباہلہ کا قیامت تک وجود علامت ہیکہ ہر وہ قوم ، قبیلہ، حزب پارٹی خانوادہ تباہی کے دہانے پر ہے جن کے دہن صرف جھوٹ کے لیے کھلتے ہیں صداقت معیار کامیابی ہے تو کذب علامت انحطاط صداقت آبرو مندانہ حیات ہے تو جھوٹ ذلت آمیز زندگی سچ بقاء آدمت کی دلیل ہے تو جھوٹ اعتبارات حیات کا قاتل سچ سکون ہے تو جھوٹ بے چینی سچ عشق ہے تو جھوٹ کرب سچ صفت محمود ہے تو جھوٹ صفت مذموم سچ رحمان کی خوشنودی تو جھوٹ کرب شیطان کی علامت سچ حسینیت ہے تو جھوٹ یزیدیت سچائی صبر ہے تو جھوٹ جبر و ستم مباہلہ سچاءی کی جیت ہے اور جھوٹ کی ہار لہذا جو سچ کا ساتھ دیگا وہی سچوں کے ساتھ ہوگا اور جو جھوٹ اور جھوٹوں سے دعویٰ محبت کریگا وہ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہوگا اب فیصلہ اہل خرد کے حوالہ ہے۔
جب ہم آیت مباہلہ پر غور و خوض کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا آغاز ان افراد کی مذمت سے ہوا ہے جو علم و آگہی برہان و دلیل آنے کے بعد بھی کٹ حجتی کرتے ہیں یعنی اپنی غلط بات پر ہٹ دھرمی اس غلط کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا اور یہ فقرہ سباق آیت سے قطع نظر بھی محل تامل ہے نہ جانے کتنے با شعور ہونے کا دعویٰ کرنے والے اس مرض لا زوال میں مبتلاء ہیں خدا سب کو محفوظ رکھے۔