ہفتہ 14 جون 2025 - 13:14
غدیر؛ اللہ کی طرف سے ہدایتِ بشریت کا براہِ راست حکم / کم از کم ۱۱۰ صحابہ نے غدیر کی روایت بیان کی

حوزہ/ حجت‌الاسلام والمسلمین استوار نے فرمایا: غدیر خم، انبیائے کرام کی رسالت کا تسلسل اور اللہ تعالیٰ کا براہِ راست حکم ہے، جو دین کی تکمیل کے لیے دیا گیا۔ قرآن کی آیت "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا..." اس بات کی روشن دلیل ہے۔ لہٰذا، غدیر کی مخالفت درحقیقت اللہ کے حکم کی مخالفت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت‌الاسلام والمسلمین محمد استوارمیمندی نے خبرگزاری حوزه سے گفتگو کرتے ہوئے عید غدیر کی عظمت کو واضح کیا اور فرمایا: حضرت علیؑ کی ولایت انبیائے الٰہی کی رسالت کا تسلسل ہے۔ یہ عید درحقیقت حضرت علیؑ کی ولایت کا جشن ہے اور معصوم اماموں کی امامت کی شروعات ہے، جو رسول اکرمؐ کے حقیقی جانشین ہیں۔

غدیر؛ نبوت کا تسلسل

انہوں نے انبیاء کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ اسلام آخری آسمانی دین ہے اور رسول اکرمؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، مگر دین کے احکام کو صحیح طور پر بیان کرنے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے معصوم امام کی موجودگی ناگزیر ہے۔ اسی لیے خداوند متعال نے حضرت علیؑ کو رسولؐ کے بعد براہِ راست جانشین مقرر فرمایا۔

آیہ اکمالِ دین؛ حضرت علیؑ کی ولایت کے اعلان کا الٰہی حکم

حوزہ علمیہ قم کے اس استاد نے قرآن کریم کی سورہ مائدہ کی آیت ۶۷ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اے رسول! وہ پیغام پہنچا دو جو آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اپنی پوری رسالت انجام نہیں دی۔ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے خطرے) سے بچائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔"

انہوں نے کہا کہ اس آیت میں خدا رسولؐ کو حکم دے رہا ہے کہ اگر وہ اس اہم پیغام (یعنی ولایت علیؑ) کو نہ پہنچائیں، تو ان کی ۲۳ سالہ رسالت گویا مکمل نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانشینی کا تعین بہت اہم مسئلہ تھا، جو امت کو گمراہی سے بچاتا ہے۔

ایک اہم سوال کا جواب

جب اُن سے پوچھا گیا کہ آخر کیوں ولایت کا اعلان، رسالت کی تکمیل کی شرط قرار پایا؟ تو انہوں نے جواب دیا: یہ کوئی معمولی یا جزوی حکم نہیں تھا، بلکہ مستقبل میں اسلام کے رخ کا تعین تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امت اسلام گمراہی سے محفوظ رہے اور توحید کو باقی رکھا جا سکے۔ حضرت علیؑ کی ولایت اور آئمہ معصومینؑ کی امامت سے بڑھ کر کوئی اور چیز دین کو مکمل نہیں کر سکتی۔

غدیر؛ مخالفتوں کے باوجود ایک فیصلہ کن موڑ

حجت‌الاسلام والمسلمین استوارمیمندی نے غدیر خم کے واقعے کے ساتھ ہونے والی تاریخی مخالفتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خدا نے اسی آیت میں رسولؐ کو یہ وعدہ دیا کہ وہ اُنہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا:

"وَاللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ"

("اور اللہ تمہیں لوگوں سے بچائے گا")

یہی ظاہر کرتا ہے کہ غدیر صرف ایک عام اجتماع نہیں تھا بلکہ اسلام کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن اور حساس موڑ تھا جس کے بہت سے دشمن بھی تھے۔

سیاسی حالات اور سازشیں

انہوں نے اس دور کے سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: رسول اللہؐ کی عمر کے آخری برسوں میں اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل چکا تھا، لیکن ایسے افراد بھی تھے جو صرف اقتدار کے خواہاں تھے۔ وہ پہلے ہی اس بات کی منصوبہ بندی کر چکے تھے کہ رسولؐ کے بعد خلافت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ وہ حضرت علیؑ کو جانشین مقرر کرنے کے اعلان پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔

غدیر صحابہ کی روایت میں؛ ۱۱۰ راوی اور حضرت علیؑ کے ساتھ بیعت پر رسول اکرمؐ کا تاکید

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے تاریخی حوالوں کی روشنی میں بیان کیا کہ کم از کم ۱۱۰ صحابہ نے واقعۂ غدیر کو روایت کیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ بلند کرتے ہوئے فرمایا: "جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔"

پھر آپؐ نے دعا کی: "اے اللہ! جو علیؑ سے دوستی کرے، تُو بھی اس سے دوستی کر، اور جو علیؑ سے دشمنی کرے، تُو بھی اس کا دشمن ہو۔"

آپؐ نے یہ بھی حکم دیا کہ تمام قافلے تین دن غدیر کے مقام پر رکیں، تاکہ سب لوگ حضرت علیؑ کے ساتھ بیعت کر سکیں۔

شکوک و شبہات کا مدلل جواب

حجت‌الاسلام والمسلمین استوارمیمندی نے اُن لوگوں کے اعتراض کا جواب دیا جو غدیر کے واقعے کو صرف حضرت علیؑ سے محبت کا اظہار سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا: اگر غدیر صرف علیؑ سے محبت کے اظہار کا نام ہوتا، تو اس قدر رسمی اہتمام، تاکید اور تین دن تک کا قیام ضروری نہ تھا۔

حضرت علیؑ سے محبت کوئی خاص بات نہیں، کیونکہ تمام صحابہ رسولؐ کے محبوب تھے۔

غدیر دراصل دین کی حفاظت کے لیے ایک الٰہی فیصلہ تھا، جیسا کہ قرآن کی یہ آیت گواہی دیتی ہے: "آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں، اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔"

(سورہ مائدہ، آیہ ۳)

حضرت علیؑ کی بے مثال شخصیت

انہوں نے حضرت علیؑ کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے کہا: حضرت علیؑ بچپن سے ہی رسول اللہؐ کی تربیت میں رہے وہ معرفت، شجاعت، علم اور خاندانی فضیلت میں بے مثال تھے۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کے شوہر اور آئمہ معصومینؑ کے والد ہونے کی حیثیت سے وہ ایک مثالی انسان تھے۔ کیا کوئی اور شخص تھا جو امامت کی اتنی بڑی ذمہ داری اٹھا سکتا؟

ولایت کے خلاف دشمنی آج بھی جاری ہے

انہوں نے خبردار کیا کہ آج بھی غدیر کے مخالفین موجود ہیں۔ عالمی استکبار (طاقت کے پجاری) ہر اُس تحریک سے دشمنی رکھتا ہے جو ولایتِ علیؑ کا مظہر ہو، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اسلامِ حقیقی کی بقا ولایت و امامت کے سائے میں ہی ہے۔

غدیر؛ وحدت، ہدایت اور عدالت کا روشن نشان

انہوں نے اس تاریخی واقعے کی معاصر دشمنیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: غدیر، امت مسلمہ کی وحدت کا مرکز اور ہدایت و انصاف کی روشن علامت ہے۔

آج بھی بعض لوگ زمین پر اللہ کی ولایت کے نفاذ کے مخالف ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت رسول اکرمؐ کے مشن اور انسانوں کی سعادت کے دشمن ہیں۔ ان مخالفتوں سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ غدیر ایک آسمانی اور الٰہی واقعہ ہے اور جو شخص واقعی دینِ رسولؐ کا پیرو ہے، وہ غدیر کے پیغام کو عام کرنے میں کوشاں ہو گا۔

غدیر؛ براہِ راست الٰہی حکم

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ: غدیر کوئی عام یا صرف سیاسی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کا حکم تھا جو دین کے مکمل ہونے کے لیے دیا گیا۔

سورہ مائدہ کی آیت "الیوم أکملت لکم دینکم..." اس حقیقت کی کھلی شہادت ہے۔ لہٰذا غدیر کی مخالفت دراصل اللہ کے حکم کی مخالفت ہے۔

حضرت علیؑ؛ تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مرکز

اس دینی محقق نے فرمایا:حضرت علیؑ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ ان کے فضائل پر ان کے مخالفین بھی معترف ہیں۔

وہ علم، عدل اور شجاعت میں اس درجہ بلند ہیں کہ تمام مسلمان ان کا احترام کرتے ہیں۔

اگر غدیر کی حقیقت کو صحیح طریقے سے بیان کیا جائے، تو یہ سب مکاتبِ فکر کے درمیان اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

عالمی پیغامِ غدیر

آخر میں انہوں نے یہ تمنا ظاہر کی کہ: ایک دن ایسا آئے کہ عید غدیر کو امت مسلمہ کی سب سے بڑی عید کے طور پر دنیا بھر میں منایا جائے،اور تمام مسلمان ولایتِ امیرالمؤمنین علیؑ کے پرچم تلے متحد ہو جائیں۔

غدیر صرف شیعہ حقانیت کی دلیل ہی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے اتحاد اور انصاف کا پیغام بھی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha