۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
News ID: 370869
28 جولائی 2021 - 19:02
مولانا سید غافر رضوی

حوزہ/ ولایت کا عہدہ آسانی سے نہیں ملتا جو عہدہ علی کوغدیرخم میں حکم خداوندی کے تحت رسول اکرمؐ کے وسیلہ سے حاصل ہوا، اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میدان غدیر اور اس میں واقع ہونے والا واقعہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی،مدیر ساغر علم دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی میخانۂ غدیر: غدیری میخانہ میںرندوں کاہجوم تھا، آفتاب کی تپش کے باوجودباران رحمت کانزول ہورہا تھا،١٨ذی الحجہ سن١٠ہجری بمطابق ٦٣٢عیسوی کا مبارک موقع تھا، تمام رندوں کے خالی جام، مئے ولایت سے پُرہوگئے۔ آفتاب کی تمازت نے غدیر خم کی زمین کو  جھلسا رکھا تھالیکن اس حالت کے باوجود جمّ غفیرتھا کیونکہ یہ ایساموقع تھاکہ حضوراکرمؐ اپنی مبارک زندگی کا سب سے آخری حج کرکے واپس پلٹ رہے تھے، جب غدیرنامی کھلے میدان میں پہونچے تو حکم خداوندی کے تحت حکم دیاکہ یہاں قیام کریں گے لہٰذا جو لوگ آگے بڑھ گئے ہیں انہیں پیچھے بلایا جائے اور جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظارکیا جائے۔ آفتاب کی تمازت اورزمین کی تپش میں کھلے میدان میں حاجیوں کو روکنا عقل سے بعید شمارہوتاہے! اگر کوئی عام انسان بغیر کسی سائے کے کھلے میدان میں کوئی پروگرام منعقدکرنے لگے تو تمام صاحبان فہم وفراست ایسے انسان کو دیوانہ کے لقب سے نوازیں گے، لیکن جو رسولؐ، اللہ کی جانب سے رسول رحمت بن کرآیاہو،جس نے کسی جانورکوبھی کبھی کوئی اذیت نہ دی ہواورجس کے فضائل سے کتاب خدامملوہوکیا ایسے رسول کویہ زیب دیتاہے کہ خوامخواہ حاجیوں کو اذیت دے؟ جی نہیں! ایسا ممکن ہی نہیں ہے، لہٰذا اس دوپہرمیں حاجیوں کو روکے جانے کا سبب دریافت کرنا ہوگا؛ اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے کچھ اسباب کا تذکرہ نہایت ضروری ہے تاکہ اس حقیقت سے ہمارا نوجوان طبقہ بھی آگاہ ہوجائے: (الف)حکم خدایہی تھاکہ غدیرکی دوپہرمیں لوگوں کو روکا جائے، حکم خداوندی،اس مسئلہ کی اہمیت کو روشن کررہا ہے کہ یہ پیغام اتنا اہم ہے کہ چاہے سورج کی تپش ہولیکن یہ پیغام سننا نہایت ضروری ہے۔ (ب)جب پیغام اہم ہوتوپھر وقت نہیں دیکھاجاتا بلکہ یہ دیکھاجاتا ہے کہ ہمارا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچے۔ (ج)میدان غدیر،جغرافیائی اعتبارسے ایسے مقام پرواقع ہے کہ جہاں سے تمام اہل عرب کے راستے جدا ہوجاتے ہیں لہٰذا پیغمبراسلامؐ نے اس مقام سے بڑھ کرکوئی مقام اتنا اچھا نہیں دیکھاکہ جہاں ایک وقت میں اتنے لوگوں کودعوت ولایت دی جاسکے۔تاریخی اعتبارسے غدیرخم کے مجمع کی تعداد ٧٠ہزار سے ١٢٠٠٠٠ افراد تک بتائی جاتی ہے، البتہ مشہور روایت کی بناپر١٢٥٠٠٠/افرادیعنی سوالاکھ کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔جب مومنین کے قلوب، غدیری فضا کی سیر کرتے ہیں تو ہر دل مومن سے یہی ندا آتی ہے:  ''چلو غافر غدیرخم، ولا کی مئے پئیں چل کر... مدینہ کی صراحی پر نجف کا جام رکھا ہے ''۔

غدیر کی کہانی، رسولؐ کی زبانی: غدیری فضا میں اذان ظہر کی آواز گونجی، لوگ نماز ظہر کے لئے آمادہ ہوئے ، پیغمبر اکرمؐ کی قیادت میں نماز ظہر ادا کی گئی ۔ اس کے بعد حضوراکرمؐ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور حکم دیا کہ پالان شتر کامنبربنایاجائے (کیونکہ اس چٹیل میدان میں منبرکہاں سے ملتا؟)منبرآمادہ کیاگیا اور آپؐ اس انوکھے منبر پر جلوہ افروزہوئے اورباآواز بلند خطبہ دینا شروع کیا جس خطبہ کا مضمون یہ تھا:'' تمام تعریفیں فقط خدا کے لئے ہیں ،ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں، اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رہنے کیلئے اس خدا کی پناہ مانگتے ہیں جس کے سوا کوئی بھی گمراہوں کی ہدایت نہیں کرسکتا ۔ہم گواہی دیتے ہیں کہ جس کی خداوند کریم ہدایت کرے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ؛ ہم اس خدا کی گواہی دیتے ہیں جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور محمدؐ،خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔اے لوگو!خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ہر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پہلے کی رسالت سے آدھی ہوتی ہے ، اور میں بہت جلد دعوت حق پر لبیک کہنے والاہوں ، میرے کاندھوں پر بھی ایک عظیم ذمہ داری ہے اور تم لوگ بھی ذمہ دارہو ،تم لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہو؟اصحاب رسولؐ نے کہا:ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ہمارے بارے میں خیر خواہی کی،ہمیں نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خداوندعالم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔مجمع پر خاموشی چھاگئی تو پیغمبرؐنے فرمایا: کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں اور محمدخدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے؟ ، جنت ، جہنم اور موت حق ہے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خداوندعالم زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟اصحاب رسولؐ نے کہا:بے شک! بے شک!ہم ان تمام چیزوں کی گواہی دیتے ہیں ۔پیغمبرؐنے فرمایا:میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ے جارہا ہوں، دیکھو! تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤکرو گے؟۔ایک شخص نے سوال کیا: یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ہیں ؟پیغمبر نے جواب دیا:ثقل اکبر خدا کی کتاب ہے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رہو تا کہ گمراہ نہ ہواور ثقل اصغر میری عترت (اہل بیت علیہم السلام) ہیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔خبردار!خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا کہ ہلاک ہوجاؤاور ان سے پیچھے بھی نہ رہناکہ نابودی کے گھاٹ اتر جاؤ بلکہ ان کے صادر کردہ پیغامات کو عملی جامہ پہنانا ۔اس کے بعد پیغمبرؐنے علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اس قدر بلند کیا کہ آپؐ کی سفیدی بغل نمایاں ہوگئی اور تمام لوگوں نے علی کو پیغمبرؐکے پہلومیں دیکھا اور انہیں اچھی طرح سے پہچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی سے مربوط اعلان ہے ۔سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبرؐکی بات سننے کے منتظر تھے۔پیغمبر ؐنے فرمایا: اے لوگو!مومنوں پر ، خود ان سے زیادہ حقدار کون ہے ؟اصحاب پیغمبر نے کہا:خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ نےفرمایا: خدا میرا مولا اور میں تمام مومنوں کا مولا اور ان پر خود ان سے زیادہ اولیٰ ہوں ۔ اے لوگو! ''من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' یعنی جس جس کا میں مولاہوں اس کے علی بھی مولاہیں اور پیغمبرؐنے اس جملہ کی تین بار تکرار فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا:''اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ'' یعنی پروردگار!اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔ خدایا!علی کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندعالم!علی کو مرکز حق قرار دے۔ اس کے بعد پیغمبرؐنے فرمایا: جولوگ اس جلسہ میں حاضر ہیں ان کا فریضہ ہے کہ اس پیغام کو غائب حضرات تک پہونچائیں''۔آنحضرتؐ کے اس جملہ سے پیغام کی اہمیت سمجھ میں آرہی ہے کہ یہ پیغام صرف حاضرین کے لئے نہیں بلکہ غائبین کے لئے بھی ہے جن میں آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں۔ ابھی غدیری اجلاس کا مجمع منتشر نہیں ہوا تھا کہ فرشتہ وحی نازل ہوا اور پیغمبر اکرمؐ کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتاہے :(میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں)۔ احمد بن حنبل کا بیان ہے: پیغمبرؐنے اس جملہ کو چار بارارشاد فرمایا :تم لوگ اس بات پر راضی رہوکہ یہ کامل شدہ اسلام تمہارا دین ہے(سورۂ مائدہ٣)؛ پیغمبر اسلامؐ نے تکبیر بلند کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزارہوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر خوشنودہوا۔اس کے بعد پیغمبرؐ منبرسے نیچے تشریف لائے، آپؐ کے اصحاب گروہ درگروہ آگے بڑھے اور علی کی خدمت میں مبارکبادپیش کی اور انہیں اپنے اور تمام مؤمنین و مؤمنات کا مولا کہہ کر خطاب کیاجس کا مضمون یہ تھا:''بخ بخ یابن ابی طالب! اصبحت مولای ومولیٰ کل مومن و مومنة'' اے ابو طالب کے لال! مبارک ہومبارک، آپ میرے اور تمام مؤمنین ومؤمنات کے مولاہوگئے۔اس موقع پر شاعرِرسول خداؐ ''حسان بن ثابت'' کھڑے ہوئے اور اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا:''فقال لہ قم یا علی فاننی۔رضیتک من بعدی اماما و ھادیا.....فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ۔فکونو لہ اتباع صدق موالیا''۔یعنی پیغمبرؐنے علی سے فرمایا : کھڑے ہوجاؤ،میں نے تمہیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور رہنمائی کیلئے منتخب کیا ہے۔ جس کا میں مولا ہوں ، اس کے علی بھی مولاہیں ۔لوگو!تم لوگوں پر لازم ہے کہ علی کے حقیقی دوست رہو ۔مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب'' احتجاج '''میں پیغمبرؐسے منقول ایک مفصل خطبہ نقل کیا ہے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔(احتجاج طبرسی:ج١،ص٧١)۔

عید غدیر کا پس منظر: اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ واقعہ ایک سو دس صحابیوں نے نقل کیا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف انہی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیاہے، بلکہ سنی علما ء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف راوی ذکرہوئے ہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بہت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی ہے ، یا اگر نقل ہوئی بھی ہو تو ہم تک نہیں پہنچی ہے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیاہے تو تاریخ ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔دوسری صدی میں اس حدیث کو''نواسی'' افراد نے نقل کیا ہے۔بعد والی صدیوں میں حدیث کے بہت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹھ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔اس حدیث کوتیسری صدی میں''بانوے''سنی علماء نے، چوتھی صدی میں تینتالیس، پانچویں صدی میں چوبیس، چھٹی صدی میں بیس، ساتویں صدی میں اکیس ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ، نویں صدی میں سولہا ، دسویں صدی میں چودہ ، گیارہویں صدی میں بارہ، بارہویں صدی میں تیرہ ، تیرہویں صدی میں بارہ اور چودہویں صدی میں بیس سنی علما ء نے نقل کیاہے۔مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ہی اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اس کے اسناد اور مفہوم پر مخصوص کتابیں لکھی ہیں۔ عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ''طبری'' نے ''الولایة فی طرق حدیث الغدیر'' نامی کتاب لکھی اور اس میں اس حدیث کو سترسے زیادہ طرق سے ، پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیاہے۔ ابن عقدہ کوفی نے اس حدیث کو اپنے ''رسالہ ولایت'' میں ایک سو پچاس افرادسے نقل کیا ہے۔جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ہیں ، ان کی تعداد چھبیس ہے ۔ ممکن ہے اس سے زیادہ افرادہوں جنہوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مضامین لکھے ہیں لیکن تاریخ میں ان کے نام درج نہیں ہوئے یا ہماری رسائی نہیں ہے۔شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بہا کتابیں لکھی ہیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاہد مرحوم آیة اللہ امینی کی کتاب '' الغدیر''ہے ۔اسلام کی عالمی تحریک ، ابتدا سے ہی قریش بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے عام بت پرستوں کی طرف سے جنگ اور مخالفتوں سے روبرو ہوئی جو گوناگوں سازشوں کے ذریعہ اس شمع الٰہی کو بجھانے کے در پئے تھے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص کا میابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کی آخری خیالی امید یہ تھی کہ اس عظیم تحریک کے پائے اس کے پیشوا اور بانی کی وفات کے بعد اس طرح لرز جائیں گے جس طرح پیغمبرؐسے پہلے بعض لوگوں کی یکتا پرستی کی دعوت ان کی وفات کے بعد خاموش ہوگئی۔ قرآن مجید جس نے اپنی بہت سی آیات میں ان کی سازشوں اور منصوبوں سے پردہ اٹھایا تھا اس دفعہ بت پرستوں کی آخری خیالی امید یعنی وفات پیغمبرؐکے بارے میں درج ذیل آیت میں اشارہ فرماتاہے :(کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پیغمبر شاعر ہے اورہم اس کی موت کاانتظارکررہے ہیں؟آپ کہہ دیجئے کہ تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں،کیاان کی عقلیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں یا وہ واقعاً سرکش قوم ہیں؟)(سورۂ طور٣٠۔٣٢)؛ بت پرستوں کی جانب سے رسول اکرمؐ سے چھیڑی گئی جنگیں بہت زیادہ ہیں جن کو خائنانہ جنگوں کے نام سے تعبیرکیاجاتا ہے ، ان کا تذکرہ طولانی بحث کا باعث ہوگا لہٰذا صرف تاریخ میں یہ دیکھئے کہ ان جنگوں میں علی کا کیا کردار تھا؟ ظاہرسی بات ہے کہ علی نے کسی بھی میدان میں رسولؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا چونکہ آپ ولی خداتھے لہٰذا آپ کو نبی خداکے ساتھ ہی رہنا تھا،ولایت کا عہدہ آسانی سے نہیں ملتا جو عہدہ علی کوغدیرخم میں حکم خداوندی کے تحت رسول اکرمؐ کے وسیلہ سے حاصل ہوا، اس تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میدان غدیر اور اس میں واقع ہونے والا واقعہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ آخرمیں ربّ منان سے دعاہے کہ ہمیں ولایت علی پرزندہ رکھ اور ولایت علی کے ساتھ ہی اس دنیا سے اٹھانا۔ ''آمین''۔ ''والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ''۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .