حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غدیر کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور بنیادی واقعہ ہے جسے شیعہ مسلمان "عیدِ ولایت" کے طور پر مناتے ہیں۔ تاہم ایک سوال اکثر ذہنوں میں آتا ہے کہ نہجالبلاغہ جیسی عظیم کتاب میں، جس میں حضرت علیؑ کے خطبات، خطوط اور اقوال جمع کیے گئے ہیں، عید غدیر کا براہ راست ذکر کیوں موجود نہیں؟
اس سوال کا جواب دین کے محققین اور علماء نے تفصیل سے دیا ہے۔ واضح رہے کہ نہجالبلاغہ وہ عظیم مجموعہ ہے جسے پانچویں صدی ہجری کے ممتاز عالم دین سید رضیؒ نے مرتب کیا۔ انہوں نے خود اپنی کتاب کی تمہید میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ مجموعہ اپنے چند دوستوں کی درخواست پر تیار کیا، جنہوں نے حضرت علیؑ کے منتخب اور فصیح و بلیغ کلام پر مشتمل ایک کتاب کی خواہش ظاہر کی تھی۔
سید رضیؒ کے بقول، ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علیؑ کی فصاحت و بلاغت کے وہ نمونے پیش کیے جائیں جو نہ صرف اہل ادب کے لیے باعثِ حیرت ہوں بلکہ دینی و روحانی پیغام بھی لیے ہوں۔ اسی مقصد سے انہوں نے خطبات، خطوط اور اقوالِ حکمت میں سے صرف وہ باتیں چنیں جو ان کے معیار پر پوری اترتی تھیں۔
سید رضیؒ نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے حضرت علیؑ کے تمام اقوال پر احاطہ نہیں کیا اور بہت ممکن ہے کہ بہت سا قیمتی کلام اُن تک پہنچ ہی نہ سکا ہو۔ اس لیے عید غدیر سے متعلق خطبہ یا خطبات اگر نہجالبلاغہ میں شامل نہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت علیؑ نے ان کا ذکر نہیں کیا، بلکہ امکان یہ ہے کہ وہ خطبے سید رضیؒ کو دستیاب ہی نہ ہوئے۔
ماہرین دینیات کے مطابق، حضرت علیؑ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے مختلف مواقع پر واقعۂ غدیر کا حوالہ دیا۔ ایک موقع پر انہوں نے صحابہ کرامؓ کو غدیر کی گواہی دینے کے لیے بلایا اور کہا کہ جو لوگ اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں، وہ کھڑے ہو کر گواہی دیں۔ اسی طرح، شوریٰ کے اراکین سے مخاطب ہو کر پوچھا: کیا تم میں سے کسی اور کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: "من کنت مولاه فهذا علی مولاه"؟ سب نے کہا: نہیں، صرف آپؑ ہی کے لیے فرمایا گیا تھا۔
ایک اور موقع پر حضرت علیؑ نے خلیفہ اول ابوبکر سے مناظرہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ غدیر کے دن نبی اکرمؐ نے مجھے مسلمانوں کا مولا قرار دیا تھا؟ ابوبکر نے اس کی تصدیق کی۔
تاریخی روایت کے مطابق، جب حضرت علیؑ کی خلافت کا زمانہ آیا تو ایک موقع پر جمعہ اور عید غدیر ایک ہی دن آ گئے۔ اس موقع پر حضرت علیؑ نے ایک جامع خطبہ دیا جس میں واضح طور پر اعلان کیا: اے مؤمنو! آج کے دن اللہ تعالیٰ نے تمہیں دو عیدوں کی خوشی دی ہے۔ یاد رکھو! توحید اس وقت قبول ہوتی ہے جب رسالتِ محمدیؐ کو مانا جائے، اور کوئی عمل اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک اس شخصیت کی ولایت کو تسلیم نہ کیا جائے جسے اللہ نے تمہارا ولی مقرر کیا ہے۔
اسی خطبے میں حضرت علیؑ نے "حبل اللہ" یعنی اہل بیتؑ کی ولایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے غدیر کے دن ان کی امامت و ولایت کا اعلان کروایا، اور رسولؐ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں، مخالفوں کی پروا نہ کریں، کیونکہ اللہ نے ان کے شر سے حفاظت کی ضمانت دی۔
خطبے کے آخر میں حضرت علیؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسی دن دین کو مکمل کیا، نبیؐ کی آنکھیں ٹھنڈی کیں، اور مؤمنین کو خوشی دی۔ یہ وہی دن (غدیر) ہے جس کے کچھ گواہ تم میں موجود ہیں اور کچھ کو اس کی خبر دی گئی۔ یہ عہد و پیمان، دین کی تکمیل اور واضح قیادت کے اعلان کا دن ہے۔
خلاصہ:
عید غدیر کا ذکر نہجالبلاغہ میں براہ راست موجود نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ حضرت علیؑ نے اسے بیان نہیں کیا، بلکہ سید رضیؒ نے یہ کتاب خطبوں کی منتخب اور فصیح شکل میں مرتب کی تھی۔ اس لیے بہت ممکن ہے کہ عید غدیر سے متعلق حضرت علیؑ کے خطبے سید رضیؒ کو دستیاب نہ ہوئے ہوں، یا اُن کی ترجیحی فہرست میں شامل نہ ہو سکے۔ جبکہ حضرت علیؑ کی دیگر کلمات اور تاریخی مواقف میں غدیر کا ذکر کثرت سے ملتا ہے، اور یہ مسئلہ امتِ اسلامی کی رہبری اور امامت کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔









آپ کا تبصرہ