۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
تصاویر / دیدار نماینده ویژه ایران در امور افغانستان با آیت الله العظمی جوادی آملی

حوزہ/ آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ موجودہ نہج البلاغہ میں مولائے کائنات (ع) کے بہت سے اہم اور علمی خطبے ذکر نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا علی ابن ابی طالب (ع) کو خطابت اور سید رضیؒ سے نہیں بلکہ خطبوں سے پہچانا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت الله العظمیٰ جوادی آملی نے فرمایا کہ مرحوم کلینیؒ نے نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا قول نقل کیا ہے کہ "خدا نے مخلوقات میں مجھ سے بڑی کوئی آیت اور نشانی نہیں خلق کیا۔" چونکہ اہل بیت (ع) ایک ہی نور سے ہیں، اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ اہل بیت (ع) پیغمبر اکرم (ص) سے لے کر امام زمانہ (عج) تک سب ایک نور سے ہیں، مخلوقات میں ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے اور وہ خدا کے خاص بندے شمار ہوتے ہیں۔

اگر ہم امام علی علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کریں تو کبھی غدیر کا ذکر آئے گا اور کبھی نہج البلاغہ کا، دونوں کا ذکر قرآن کریم کی آیات کے ہمراہ آتا ہے۔ اگر ہم قرآن مجید اور روایات پیغمبر اکرم (ص) کے علاوہ علی ابن ابی طالب (ع) کو متعارف کرانا چاہیں تو نہج البلاغہ میں مولائے کائنات کے نورانی بیان سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہے۔

مفسر قرآن، آیت اللہ جوادی آملی نے مزید کہا کہ اس اصلی نہج البلاغہ کو متعارف کروائیں جس میں خدا کے فضل سے تمام خطبوں کو جمع کیا گیا ہے، سید رضیؒ نے بہت کوشش کی لیکن شاید انہیں اتنا وقت نہ ملا کہ تمام خطبوں کو یکجا جمع کیا جا سکے یا پھر انہیں اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی اور امام کے تمام کلام کو جمع کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہا ہو۔ امام علی (ع) کے بہت سے علمی بیانات موجودہ نہج البلاغہ میں مذکور نہیں ہیں۔

آیت الله العظمیٰ جوادی آملی نے کہا کہ علی ابن ابی طالب (ع) کو خطبوں سے پہچانا جانا چاہئے، خطابت اور سید رضی سے نہیں، سید رضیؒ نے زیادہ تر مولا کی خطابت کو نقل کیا ہے خطبوں کو نہیں، مرحوم کلینی اپنی کتاب جوامع توحید کی پہلی جلد میں کہتے ہیں: "علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایک ایسا خطبہ موجود ہے کہ اگر نبیوں کے علاوہ تمام جن و انس جمع ہو جائیں تو وہ ایسا خطبہ نہیں دے سکتے۔" مرحوم صدر المتالھین اصول کافی کی شرح میں اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کلینی ؒ کو یہ جملہ بھی اضافہ کرنا چاہئے تھا کہ اگر بڑے رسولوں کے علاوہ تمام جن و انس جمع ہو جائیں اور مولائے کائنا کے اس خطبہ کے جیسا خطبہ لانا چاہیں تو وہ نہیں لا سکتے۔ وہ خطبہ کچھ اس طرح سے شروع ہوتا ہے: «…لَا مِنْ‏ شَیْءٍ کَانَ وَ لَا مِنْ‏ شَیْءٍ خَلَقَ مَا کَانَ…» یہ خطبہ کلینیؒ نے نقل کیا تھا، لیکن سید رضی نے اسے نہج البلاغہ میں ذکر نہیں کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام علی(ع) کے کلام کی علمی حیثیت خطبوں سے نمایاں ہوتی ہے، خطابت میں عسکری، اقتصادی، اخلاقی اور قانونی مسائل کے متعلق گفتگو ہوتی ہے، لیکن اس کے مقابل میں وہ اعلیٰ توحیدی تعلیمات جن کے بارے مولا نے گفتگو کی ہے وہ بہت زیادہ اہم ہیں۔

آیت اللہ جوادی آملی نے بیان کیاکہ میں اس وقت نہج البلاغہ کی شرح لکھ رہا ہوں، میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ علی ابن ابی طالب (ع) وہ نہیں ہیں جو سید رضی کی نہج البلاغہ میں مذکور ہیں بلکہ امام علی ؑ وہ ہیں جو کامل نہج البلاغہ میں مذکور ہیں۔ مکمل نہج البلاغہ سید رضی کی نہج البلاغہ سے کئی گنا زیادہ ہے جو کہ پراکندہ ہے جس میں خطبوں کی جگہ خطابت کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور جمع کیا گیا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .