حوزہ نیوز ایجنسی | امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ کی ایک حکمت میں فرمایا: "مَنْ لَانَ عُودُهُ كَثُفَتْ أَغْصَانُهُ" جس (درخت) کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں ۔(حکمت 214)
جو شخص تند خو اور بد مزاج ہو وہ کبھی اپنے ماحول کو خوشگوار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی اس کے ہاتھوں نالاں اور اس سے بیزار رہیں گے اور جو خوش خلق اور شیریں زبان ہو لوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پڑنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے، جس سے وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنا لے جا سکتا ہے۔
یہ کلام، قرآن مجید کی اس آیت کی یاد دلاتا ہے: "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ"
(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔ (آل عمران: 159)
نہج البلاغہ کی ایک اور حکمت میں آیا ہے: "قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ، فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْه" لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں، جو ان کو سدھائے گا اس کی طرف جھکیں گے۔ (حکمت 50)
ایسی بہت سی آیات و روایات ہیں جو اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ انسانی فطرت نرمی اور خوش اخلاقی سے مانوس ہے اور اسی راہ سے مجذوب ہوتی ہے جبکہ بدخلقی انسانوں کو اس سے دور کر دیتی ہے۔
اسی لیے امیرالمؤمنین علیہ السلام خوش اخلاق انسان کو اس درخت سے تشبیہ دیتے ہیں جس کا وجود اخلاقی خوبیوں سے متاثر ہو کر شادابی اور سرسبزی اختیار کر لیتا ہے یہاں تک کہ دوسرے لوگ اس کے گرد شاخوں کی طرح جمع ہو جاتے ہیں اور اس سے فیض اٹھاتے ہیں اور وہ بھی انہیں فائدہ پہنچا کر خود بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: "خِیَارُکُمْ أَحَاسِنُکُمْ أَخْلَاقاً، اَلَّذِینَ یَأْلَفُونَ وَیُؤْلَفُونَ" تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے بہتر ہوں؛ وہ لوگ جو دوسروں سے اُنس رکھتے ہیں اور جن سے اُنس رکھا جاتا ہے۔ (تحف العقول، ج1، ص45)
مرتبہ: علمی و ثقافتی شعبہ، حوزہ نیوز ایجنسی









آپ کا تبصرہ