حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے "نہج البلاغہ کا نفرنس" کے لئے پیغام کا متن حسبِ ذیل ہے:
مرکز افکار اسلامی کے سربراہ جناب مولانا مقبول حسین علوی اور ان کے رفقاء کی محنت اور ذمہ داری سے بیرون ملک اور پاکستان میں سال بھر میں علم و حکمت سے لبریز خطبات امیر المومنین پر مشتمل عظیم خزانہ نہج البلاغہ کے تعارف اور اہمیت کے حوالے سے پروگرامز منعقد کئے جاتے رہتے ہیں۔ جس سے لوگوں کے فکر و شعور میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امام عادل کے فصیح و بلیغ کلام کو آئندہ نسلوں بلکہ نسلِ انسانیت تک منتقل کرنا عہد حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے مرکز افکار اسلامی کے ذمہ داران کے ساتھ ہمکاری کرنا مستحسن عمل ہے۔
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ذات مجموعہ کمالات ہے۔ ان کی فضیلت اور خصوصیات پر قرآنی آیات اور احادیث پیغمبر گرامی (ص) اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا گویا قرآنی تعلیمات اور سنت رسول (ص) کی عملی تعبیر کا مشاہدہ آپ کی سیرت عالیہ میں کیا جا سکتا ہے۔
مولائے کائنات (ع) کے معارف اسلامی پر مبنی خطبات فصاحت و بلاغت کا بے مثال نمونہ ہیں۔ اس کے عجیب ترین امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی مآخذ قرآن مجید کی طرح فکری، سیاسی اور اخلاقی نظریات تحلیل اور اس کی منطق تازہ اور جدید ہے گویا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی زبان مبارک سے عہد حاضر ہی کے لئے صادر ہوئے ہیں۔
انسانی معاشرہ کے پیچیدہ مشکلات کے اس دور میں جب مختلف فکری مذاہب کے ظہور ، اعتقادات، اخلاق ،تقوی اور فضیلت پر حملے ہونے کا زمانہ ہے ایسے میں نہج البلاغہ کا فصیح وبلیغ کلام ہدایت ورہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔
حقائق و معارف سے لبریز کم و بیش 241 خطبات میں عقائد، احکام، افراد، حیوانات، نباتات، افلاک و کواکب، معد نیات، تاریخی شہروں و واقعات کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ادعیہ کے بیان میں جو طرز اسلوب اور جاذبیت ہے۔ وہ علم و کمال کے متلاشی افراد کے لئے مینارہ نور ہے۔ حضرت نے سیاست الہیہ کو جس مفصل اور مدلل انداز میں بیان کیا وہ انتہائی بے مثال ہے۔ اسی لئے تو جب ہم صاحب نہج البلاغہ کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی ذات اور جسم سے دشمنی نہیں تھی بلکہ ان کی فکر اور اصلاحات سے عدوات تھی جو کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کی تھیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ، فکر اور نظریے کی شہادت ہے۔
آخر میں میں نہج البلاغہ کا نفرنس کے منتظمین اور جامعہ جعفریہ جنڈ کے مسئولین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی توفیقات خیر میں اضافے کے لئے دعا گو ہوں اور حاضرین سے بجا طور پر توقع ہے کہ اس کا نفرنس سے بھر پور استفادہ کریں گے اور خاص طور پر نو جوان نسل اپنی فکری عملی تربیت کے لئے اس سے مستفید ہوگی۔
سید ساجد علی نقوی