بدھ 21 مئی 2025 - 13:31
نہج البلاغہ میں امام علی (ع) کا انتباہ: نعمت اور گناہ، ایک ہی سکے کے دو رُخ

حوزہ/ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے حکمت نمبر 25 میں شکرگزاری اور ذمہ داری کے ایک نہایت اہم نکتے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے حکمت نمبر 25 میں شکرگزاری اور ذمہ داری کے ایک نہایت اہم نکتے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:

"اے فرزندِ آدم! جب تم دیکھو کہ تمہارا پروردگار تم پر مسلسل اپنی نعمتیں نازل کر رہا ہے، جبکہ تم اس کی نافرمانی کر رہے ہو، تو اس سے ڈرو۔"

یہ جملہ ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ ہے جو خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو بے باکی سے گناہوں میں استعمال کرتے ہیں۔

ترجمہ حکمت 25:

"اے ابنِ آدم! جب تم دیکھو کہ تمہارا رب (سبحانہ) تم پر اپنی نعمتیں پے در پے نازل کر رہا ہے جبکہ تم اس کی نافرمانی کر رہے ہو، تو اس سے ڈرو۔"

تشریح:

الہی مہلت سے ڈرو:

امام علی علیہ السلام اپنے اس حکیمانہ کلام میں گناہگار اور غافل انسانوں کو خبردار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

"اے فرزندِ آدم! جب تم دیکھو کہ تمہارا رب تم پر مسلسل نعمتیں بھیج رہا ہے اور تم اس کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہو، تو اس سے ڈرو؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی سخت اور دردناک عذاب تمہیں آ لے۔"

گناہگار افراد تین قسموں کے ہوتے ہیں:

1. پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے گناہ معمولی ہوتے ہیں یا وہ نیک اعمال انجام دیتے ہیں اور ان کے دل پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسی دنیا میں بعض آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ پاک ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔

2. دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے گناہ زیادہ سنگین ہوتے ہیں اور ان پر اللہ کا عذاب واجب ہو جاتا ہے۔ اللہ انہیں توبہ کا حکم دیتا ہے، اگر وہ توبہ کرلیں تو بچ جاتے ہیں، بصورتِ دیگر آخرت میں سخت گرفت میں آئیں گے۔

3. تیسری قسم وہ لوگ ہیں جو سرکشی اور نافرمانی کی حد پار کر چکے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیتا ہے، ان پر نعمتوں کی بارش کرتا ہے، لیکن یہ سب عذابِ استدراج کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی اللہ ان سے اپنی رحمت چھین لیتا ہے، انہیں توفیقِ عملِ صالح سے محروم کر دیتا ہے، اور ان کے لیے دنیوی اسباب و وسائل میں وسعت پیدا کرتا ہے تاکہ وہ مزید گناہوں کے بوجھ تلے دب جائیں۔ پھر اچانک ایک سخت اور تباہ کن عذاب ان پر نازل ہوتا ہے، اور چونکہ وہ خوشحالی اور آرام میں ہوتے ہیں، اس لیے یہ عذاب اور بھی زیادہ دردناک محسوس ہوتا ہے۔

یہ بالکل اس شخص کی مانند ہے جو ہر لمحہ ایک درخت کی شاخ پر چڑھتا جا رہا ہو، اور جیسے ہی وہ بلندی پر پہنچے، اس کا توازن بگڑ جائے اور وہ نیچے آ گرے، یہاں تک کہ اس کی تمام ہڈیاں ٹوٹ جائیں۔

قرآن کریم بھی بارہا استدراجی عذاب کا ذکر کرتا ہے۔ مثلاً قرآن کہتا ہے:

"پھر جب وہ اس نصیحت کو بھلا بیٹھے جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر قسم کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں پر خوش ہو گئے، ہم نے اچانک انہیں پکڑ لیا، پس وہ ہر چیز سے مایوس ہو گئے۔" (سورہ انعام، آیت 44)

اسی طرح سورہ اعراف کی آیات 182 اور 183 میں ہے:

"اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے طریقے سے پکڑ لیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی، اور ہم انہیں مہلت دیں گے (تاکہ ان پر عذاب مزید سخت ہو)، بے شک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔"

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

"جب اللہ کسی بندے کے لیے خیر چاہتا ہے اور وہ گناہ کرتا ہے، تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ توبہ کرے؛ اور جب اللہ کسی بندے کے لیے شر چاہتا ہے اور وہ گناہ کرتا ہے، تو اس پر ایک نعمت نازل کرتا ہے تاکہ وہ استغفار کو بھلا دے اور گناہ میں ڈوبا رہے۔ اور یہی وہ بات ہے جس کی طرف قرآن میں اشارہ ہے: 'ہم انہیں آہستہ آہستہ (اسی حالت میں) پکڑ لیں گے' یعنی نعمتوں کے ذریعے، گناہوں کے وقت۔"

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے:

اللہ تو ہدایت اور بیداری چاہتا ہے، پھر یہ غفلت اور گرفت کیوں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ الہی توفیق انسان کی شایستگی پر مبنی ہوتی ہے۔ جب انسان سرکشی اور غرور کی انتہا کو پہنچ جائے اور اپنی لیاقت کھو بیٹھے، تو ہدایت کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں اور وہ صرف مجازات کا مستحق رہ جاتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • سیدہ التماس زینب نقوی PK 21:36 - 2025/06/12
    والد سید ناصر علی گاؤں دھنگدیوں سیداں تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی عمر 17 سال فون نمبر 03360942316