بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ.سورہ آل عمران، آیت ۱۷۸
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے، ہم انہیں مہلت صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادہ بڑھ جائیں، اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
موضوع: یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہیں اور کفر اختیار کرتے ہیں۔ اس آیت میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے دی جانے والی مہلت کو وہ اپنے لئے بہتر نہ سمجھیں۔
پس منظر: سورہ آل عمران کی یہ آیت مکہ کے کفار کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اپنے کفر پر قائم تھے اور رسول اللہ ﷺ اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بار بار خبردار کیا لیکن انہوں نے اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی۔ یہ آیت ایسے لوگوں کے لیے ایک وارننگ ہے جو نافرمانی کے باوجود دنیاوی زندگی کی آسانیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تفسیر: اللہ تعالیٰ یہاں کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو دنیاوی آسائشوں میں دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں یا اللہ کی مہلت انہیں کسی بھلائی کے لیے دی جا رہی ہے، یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ حقیقت میں یہ مہلت ان کے گناہوں میں اضافے کا باعث بنے گی اور انہیں آخرت میں شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک تنبیہ ہے کہ اللہ کی مہلت کو نافرمانی کا موقع نہ سمجھا جائے بلکہ اسے توبہ اور اصلاح کے لئے استعمال کیا جائے۔
نتیجہ: اس آیت کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیاوی زندگی میں انسان کو ملنے والی مہلت یا آسانیوں کو اپنی نافرمانی کا جواز نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے دوران اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ورنہ آخرت میں ذلت آمیز عذاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ آل عمران