بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ. سورہ آل عمران آیت ۱۸۵
ترجمہ: ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم سب کو قیامت کے دن پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، پس جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
موضوع:
یہ آیت موت اور آخرت کے حوالے سے انسان کی رہنمائی کرتی ہے، اور دنیاوی زندگی کی حقیقت کو بیان کرتی ہے۔
پس منظر:
سورہ آل عمران کی یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کو دنیاوی زندگی کی حقیقت اور آخرت کی تیاری کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کرائی جا رہی تھی کہ اصل کامیابی آخرت میں ہے، نہ کہ دنیاوی مال و دولت یا شہرت میں۔
تفسیر:
آیت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے چند اہم نکات پر غور کیا جا سکتا ہے:
- موت کی حقیقت: ہر انسان کو موت کا سامنا کرنا ہے، کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہ دنیاوی زندگی عارضی ہے اور آخرت کی زندگی ابدی ہے۔
- آخرت کا انعام: قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ ملے گا۔ اچھے اعمال والے جنت میں جائیں گے اور برے اعمال والے جہنم میں۔
- دنیا کی حقیقت: دنیاوی زندگی کی حقیقت کو "متاع الغرور" یعنی دھوکے کا سامان قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو اس عارضی دنیا کی چمک دمک سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے اور آخرت کی تیاری پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
- کامیابی کی تعریف: حقیقی کامیابی وہ ہے جو آخرت میں حاصل ہو، یعنی جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہو جانا۔
نتیجہ:
یہ آیت انسان کو اس حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ دنیاوی زندگی عارضی اور دھوکہ دہ ہے، اور حقیقی کامیابی آخرت میں ہے۔ لہٰذا، انسان کو اپنی زندگی میں ایسے اعمال کرنے چاہیے جو آخرت میں کامیابی کا سبب بنیں۔ اس کے علاوہ، انسان کو موت کی تیاری کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیے تاکہ وہ آخرت میں سرخرو ہو سکے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ آل عمران