۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ میں آیت اللہ حافظ ریاض نجفی نے فرمایا کہ تعلیم کامقصد اخلاق، کرداراور اچھی تربیت ہونا چاہیے، مفیدتحریر، کتاب، درخت یا رفاہِ عامہ اور اچھی تربیت یافتہ اولاد اچھی آخرت کے لئے نصیحتیں ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ قیامت کے دن گمراہ لوگوں کا یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ انہیں غلط رہبروں نے راہِ حق سے ہٹادیا تھا۔قرآن میں ہے کہ اُس دن وہ لوگ ان غلط رہبروں پر لعنت بھیجیں گے اور رہبر ایسے پیروکاروں سے بیزاری کا اظہار کریں گے لیکن دونوں کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔قیامت کے دن ہر شخص کو جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا۔گنہگار اس میں رہ جائیں گے جبکہ نیکو کار وں کو اس سے نکال کر جنت بھیجا جائے گا۔بعض افرادوہاں سے بجلی چمکنے جیسی تیزی سے نکل کر جنت جائیں گے،بعض سست رفتاری سے اور بعض کو جہنم سے دھکیل کر جنت میں لے جایا جائے گا۔کچھ ایسے بھی ہوں گے جو کچھ عرصہ جہنم میں گزارنے کے بعد جنت جانے کے حقدار ہوں گے۔جنت جانے والوں کا استقبال کیا جائے گا۔

جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ میں حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ عام طور پر تعلیم کامقصد روزگاراور دولت کا حصول ہوتا ہے جس میں کوئی حرج نہیں لیکن مقصد فقط یہی نہ ہو بلکہ علم حاصل کرنے کا اصل مقصد اخلاق، کرداراور اچھی تربیت ہو۔خود کو آخرت کے لئے تیار کرنا ہو۔تعلیم و تربیت میں اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ کیا چاہتا ہے؟اُس زندگی کے لئے تیاری کرنا چاہئے جہاں قبر میں بھی شاید لاکھوں سال یا زیادہ رہنا پڑ سکتا ہے اورپھر جنت یا جہنم کی ابدی زندگی گزارنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اسلام لانے والے ایک بوڑھے شخص کے سوال کے جواب میں سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچھی آخرت کے لئے تین نصیحتیں فرمائیں۔کوئی مفیدتحریر،کتاب ،درخت یا رفاہِ عامہ کا کوئی کام اور اچھی تربیت یافتہ اولاد چھوڑ کے جاﺅ۔ان کا کہنا تھا کہ اولاد کی درست تربیت کی گئی ہو تو وہ اگر کسی وجہ سے زندگی میں والدین کے حق میں اچھی نہ ہو تو ان کی موت کے بعد بھی ان کی مغفرت کے لئے نیک کام کر سکتی ہے جس کی بدولت والدین قیامت کی سختی سے بچ سکتے ہیں۔

امام جمعہ نے کہا کہ قرآن مجید میں جن انبیائؑ کا تذکرہ کیا گیا ہے اُن میں حضرت ادریس ؑ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔انبیاؑء معاشرہ کی ضروریات کے علوم و فنون بھی متعارف کراتے اور سکھاتے تھے۔حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنا،لباس سینا اور ستاروں کے علوم سکھائے۔یہ حضرت نوحؑ کے اجداد میں سے تھے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن میں بعض افراد کا تذکرہ کیا گیا ہے جو نماز ضائع کرتے اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ان صفات سے بچنا چاہئے۔نماز ضائع کرنے کا مطلب اس کی پروا ہ نہ کرنا ہے۔کبھی پڑھ لی، کبھی نہ پڑھی یا دیر سے پڑھی۔قرآن میں ایک مقام پر ان نمازیوں کے لئے ”ویل“ کی وعید ہے جو نماز میں غفلت کرتے ہیں۔نماز اللہ کی اَن گنت نعمتوں کے شکر کا ایک طریقہ ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے وقت سے پہلے نماز کے لئے تیار رہتے اور حضرت بلالؓ سے فرماتے ”بلال!ہمیں راحت پہنچاﺅ“ یعنی اذان کہو۔اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور خلاقیت کا مختلف انداز میں ذکر فرماتا ہے۔کفار کے اس اعتراض کے جواب میں کہ جب ھڈیاں گل سڑ جائیں گی تو دوبارہ کیسے زندہ کئے جائیں گے؟کے جواب میں فرمایا” انہیںوہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بارپیدا کیا تھا“۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .