بدھ 5 نومبر 2025 - 20:00
صرف علم کافی نہیں، عمل ہی نجات کا ذریعہ ہے

حوزہ/ ہر انسان اپنے اعمال کا نتیجہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور انہی کا خود ذمہ دار ہے۔ انبیائے کرام عمل کے پیکر تھے، مگر ہم انسانوں کو بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کی آیات کا تکرار دلوں کو بیدار کرنے کے لیے ہے، کیونکہ جب تک ایمان دل کی گہرائی میں راسخ نہ ہو، اثر نہیں کرتا۔ غفلت کی عادت انسان کی واپسی میں رکاوٹ بن جاتی ہے، اور نجات صرف عمل کے ذریعے ممکن ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم آیت اللہ عزیزاللہ خوشوقتؒ، جو حوزہ علمیہ کے نامور اساتذۂ اخلاق میں سے تھے، نے اپنے ایک درسِ اخلاق میں "زندگی میں عمل کی اہمیت" کے موضوع پر گفتگو کی، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

﴿وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِی عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاهُ مَنْشُورًا﴾ (سورہ اسراء، آیت ۱۳)

اس آیت میں "طائر" سے مراد انسان کا عمل ہے۔ یعنی ہر شخص اپنے اعمال کا نتیجہ اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے، جو اس سے جدا نہیں ہوتا۔ انسان جو بھی کرتا ہے، خواہ نیک ہو یا بد، اس کا اثر اس کی اپنی ذات میں باقی رہتا ہے، اور اسی کے ذمے اس کا جواب دہ ہونا ہے۔ کوئی دوسرا شخص نہ اس کا گناہ اٹھا سکتا ہے اور نہ اس کا ثواب۔

لہٰذا عمل اور کردار انسان کا ایک ذاتی مگر بنیادی مسئلہ ہے۔ انبیائے کرام خود عمل کرنے والے تھے، انہیں کسی یاد دہانی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی؛ لیکن ہم عام انسان اکثر عملِ صالح میں سستی کرتے ہیں اور ہمیں بار بار تذکّر اور نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے خداوندِ متعال مختلف آیات میں، کبھی نرم لہجے میں اور کبھی سخت تنبیہ کے انداز میں، ہمیں بار بار یاد دہانی کرواتا ہے۔

قرآنِ کریم میں ایک ہی مطلب کئی مرتبہ دہرایا گیا ہے—کہیں محبت و نرمی سے، کہیں تنبیہ اور ڈانٹ کے ساتھ، اور کہیں حوصلہ افزائی کے انداز میں۔ جیسے فرمایا گیا: "وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ" (یاد دہانی کرو، کیونکہ نصیحت مومنین کے لیے فائدہ مند ہے۔)

یہ تکرار اس لیے ہے کہ انسان ہر حال اور ہر عمر میں ایک جیسی آمادگی نہیں رکھتا۔ دل کی کیفیت، ذہنی حالت، اور روحانی بیداری بدلتی رہتی ہے۔ جب تک انسان کے اندر آمادگی پیدا نہ ہو، الہی کلام اثر نہیں کرتا۔

کچھ لوگ جوانی میں بیدار ہو جاتے ہیں، کچھ میانسالی یا بڑھاپے میں، اور یہ فطری امر ہے، کیونکہ ایمان و عمل جبر سے حاصل نہیں ہوتے، بلکہ انسان کی اپنی ارادہ و بصیرت سے پیدا ہوتے ہیں۔

البتہ انسان کے لیے اپنے پرانے رویوں کو بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر وہ عادتیں جو نفسِ امّارہ سے پیدا ہوئی ہوں، انہیں چھوڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جو انسان برسوں کسی غلط طرزِ زندگی میں رہا ہو، اس کے لیے توبہ اور تبدیلی آسان نہیں رہتی، اور یہی انسان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اگرچہ خدا بار بار یاد دلاتا ہے، مگر انسان غفلت اور سستی میں مبتلا رہتا ہے اور الہی کلام کا اثر اپنے دل میں جگہ نہیں دیتا۔

جو لوگ خدا کی بات سنتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، دراصل انہوں نے "سنا ہی نہیں"۔ جب تک دل سے سننے کا جذبہ پیدا نہ ہو، ہدایت اثر نہیں کرتی۔

اسی لیے ضروری ہے کہ انسان ہر مرحلے میں"چاہے جوانی ہو یا بڑھاپا" الہی ہدایت پر کان دھرے اور فوراً عمل کرے؛ کیونکہ جتنا عمل مؤخر ہوگا، اتنی ہی عادتیں پختہ اور ترکِ گناہ دشوار ہوتی جائیں گی۔

جب انسان گناہ، غفلت یا تاخیر پر عادی ہو جاتا ہے، تو واپسی کا راستہ تنگ اور دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں صرف ایک چیز اسے نجات دے سکتی ہے: عمل۔

محض باتیں، علم، یا تحقیق انسان کو نہیں بچاتیں، جب تک وہ عمل میں تبدیل نہ ہوں۔ تمام علم و گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ انسان نیک عمل کی طرف بڑھے۔

اگر ہم صرف بولتے، لکھتے اور پڑھتے رہیں مگر عمل نہ کریں، تو ہم بھی انہی لوگوں کی طرح ہوں گے جنہوں نے حق سنا مگر اس پر عمل نہیں کیا، اور پھر خدا کے وعدے کے مطابق حساب و سزا کے مستحق ٹھہرے۔

آخر میں مرحوم آیت اللہ خوشوقتؒ نے فرمایا: "دعا ہے کہ خداوندِ متعال ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس کا کلام دل سے سنیں، قبول کریں، اور پہلی ہی بار سن کر عمل کی راہ اختیار کریں۔"

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha