حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین حسین انصاریان نے ایران کے شہر خانی آباد نو میں واقع مسجد حضرت رسول اکرمؐ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گناہ کی تاریخ انسان کی پیدائش کے ساتھ شروع ہوئی۔ حضرت آدمؑ کے زمانے میں ہی پہلا کبیرہ گناہ، یعنی بے گناہ کا قتل، رونما ہوا جو بھائی نے بھائی کے خلاف انجام دیا۔
انہوں نے امام جعفر صادقؑ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ ہر وہ گناہ جس کے بارے میں قرآن میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے، گناہ کبیرہ ہے، جبکہ دیگر گناہ اس درجے کے نہیں ہیں اور ان کی توبہ نسبتاً آسان ہے۔
استادِ اخلاق نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک سود خور میرے پاس آیا اور توبہ کی خواہش ظاہر کی، مگر جب اسے بتایا گیا کہ توبہ کا پہلا قدم ناجائز مال سے دستبرداری ہے تو وہ توبہ کیے بغیر واپس چلا گیا۔ اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ انسان کو ایسے گناہ نہیں کرنے چاہییں جن کی توبہ اس کے لیے ناممکن یا دشوار ہو جائے۔
حجت الاسلام انصاریان نے کہا کہ گناہ سے بچنے کے لیے انسان کو دو اندرونی قوتوں کی ضرورت ہے — ایک ایمان بالله اور دوسری ایمان بالآخرت۔
ان کے مطابق بیرونی طاقت، جیسے پولیس یا عدالت، یہ دونوں وقتی اور ناقص ہیں، لیکن جو شخص دل سے خدا اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، اس کا ضمیر ہر لمحہ اس کی نگرانی کرتا ہے۔
انہوں نے آیتِ قرآن «وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ» کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خدا کے علم سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں، وہ ہر عمل کو دیکھتا ہے اور قیامت کے دن اس کا حساب لے گا۔ قرآن کہتا ہے: «یَا بُنَیَّ إِنَّهَا إِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ ... یَأْتِ بِهَا اللّٰهُ» — یعنی اگر عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو خدا اسے قیامت کے دن پیش کرے گا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر انسان اس حقیقت پر ایمان رکھے کہ خدا ناظر ہے اور قیامت میں ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا تو وہ گناہوں سے خود کو محفوظ رکھے گا۔
استادِ حوزہ علمیہ نے مزید کہا کہ انسانوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کریں اور خدا کی اطاعت کی دعوت دیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ طہارت و نجاست میں حد سے زیادہ سختی درست نہیں، لیکن مالِ حلال و حرام میں انتہائی احتیاط ضروری ہے، کیونکہ حرام کمائی انسان کے ایمان و عمل کو تباہ کر دیتی ہے۔
آخر میں انہوں نے اپنے والد کی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد ہمیشہ خمس کی ادائیگی میں حساس رہتے تھے، یہاں تک کہ آخری سال میں وفات سے چند دن پہلے ہی اپنا خمس ادا کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو مال خمس کے بغیر رہ جائے، وہ حرام شمار ہوتا ہے اور ایسی لاپرواہی انسان کے لیے آخرت میں سنگین وبال بن سکتی ہے۔









آپ کا تبصرہ